ادھورا خواب

Alham Sania
0

 

"ادھورا خواب"

شفق کی سرخی مائل روشنی کھڑکی سے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ زریں اپنے بستر پر نیم دراز تھی، اس کی نظریں چھت پر نقش ان گنت خیالوں پر جمی تھیں۔ آج پھر اسے وہی ادھورا خواب دکھائی دیا تھا۔ ایک وسیع و عریض باغ، جس میں رنگ برنگے پھول اپنی پوری آب و تاب سے کھلے تھے، ایک شفاف جھیل جس میں چاندی کی طرح چمکتی مچھلیاں تیر رہی تھیں، اور اس سب کے درمیان، ایک دھندلا سا چہرہ جو ہمیشہ اس کے قریب آتے آتے اوجھل ہو جاتا تھا۔

ادھورا خواب

یہ خواب کئی سالوں سے اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ بچپن میں وہ اسے ایک دلچسپ کہانی سمجھتی تھی، لیکن اب یہ اس کی روح میں اتر گیا تھا۔ وہ اکثر سوچتی کہ یہ چہرہ کس کا ہے؟ یہ باغ کہاں ہے؟ اور اس ادھورے پن کا کیا مطلب ہے جو ہر بار اس کے دل میں ایک کسک چھوڑ جاتا ہے؟

زریں ایک خاموش طبع لڑکی تھی۔ اس نے اپنی زندگی کتابوں اور اپنی تنہائی میں گزاری تھی۔ اس کے چند دوست تھے، لیکن وہ کسی کے ساتھ بھی اس خواب کے بارے میں بات کرنے کی ہمت نہیں کر پائی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ لوگ اسے خیالی پلاؤ پکانے والی یا وہمی سمجھیں گے۔

آج اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس خواب کی کھوج کرے گی۔ یہ محض ایک تصور نہیں ہو سکتا، اس نے اپنے دل میں ٹھان لی۔ وہ اس ادھورے پن کو پورا کرنا چاہتی تھی۔

اگلے دن، زریں نے اپنی پرانی ڈائری نکالی۔ اس نے اس خواب کی ہر چھوٹی سے چھوٹی تفصیل اس میں لکھنا شروع کر دی۔ پھولوں کے رنگ، جھیل کی لہریں، اس دھندلے چہرے کے نقوش جو کبھی کبھار واضح ہو جاتے تھے – ہر چیز اس نے اپنی یادداشت کے سہارے کاغذ پر منتقل کر دی

 "اس کام کو مکمل کرنے میں دن رات ایک ہو گئے۔ زریں نے محسوس کیا کہ لکھنے کے عمل نے دھندلے خواب کو روشن کر دیا ہے اور اب اسے کچھ جانے پہچانے پھولوں کے نام بھی یاد آ رہے ہیں۔"

 جھیل کے کنارے پر موجود درختوں کی قسمیں ذہن میں گردش کرنے لگیں، اور اس دھندلے چہرے کی جھلکیاں پہلے سے زیادہ مانوس محسوس ہونے لگیں۔

ادھورا خواب

ایک شام، جب وہ اپنی ڈائری کے اوراق پلٹ رہی تھی، تو اسے ایک پرانا نقشہ ملا۔ یہ اس کے دادا جان کا بنایا ہوا تھا، جو ایک شوقین باغبان تھے۔ نقشے میں ایک ایسی جگہ دکھائی گئی تھی جس کا نام "گلستانِ ارم" درج تھا۔ نقشے پر بنے راستے اور جھیل کی شکل کسی حد تک اس کے خواب کے باغ سے ملتی جلتی تھی۔

زریں کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ کیا یہ وہی جگہ ہو سکتی ہے؟ کیا اس کے خواب کا باغ حقیقت میں موجود ہے؟

اس نے فوراً سفر کی تیاری شروع کر دی۔ اس کے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے، لیکن اس تجسس نے اسے بے چین کر دیا تھا۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ اس کے خواب کا ادھورا پن کہاں ختم ہوتا ہے۔

طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد، زریں اس جگہ پہنچی جس کی نشاندہی نقشے میں کی گئی تھی۔ یہ ایک ویران علاقہ تھا، جہاں کبھی ایک شاندار باغ ہوا کرتا تھا۔ اب وہاں صرف پرانی دیواروں کے کچھ آثار اور سوکھے ہوئے تالاب کا نشان باقی تھا۔

زریں کا دل ٹوٹ گیا۔ کیا اس کا خواب محض ایک سراب تھا؟ کیا وہ اتنے سالوں سے ایک خیالی دنیا کے پیچھے بھاگ رہی تھی؟

وہ مایوسی کے عالم میں ایک پرانی شکستہ دیوار کے پاس بیٹھ گئی۔ اچانک اس کی نظر زمین پر پڑے ایک پتھر پر پڑی۔ اس نے جھک کر اسے اٹھایا۔ پتھر پر ایک چھوٹا سا نقش کندہ تھا – ایک مخصوص قسم کا پھول، وہی پھول جو وہ اپنے خواب میں اکثر دیکھتی تھی۔

اس کے دل میں ایک نئی امید کی کرن جاگی۔ اگر یہ نشان یہاں موجود ہے، تو شاید کچھ اور بھی باقی ہو۔

ادھورا خواب

"ارد گرد کی ہر چیز کو کھنگالنے کے بعد، زریں کو ایک پرانی کتاب ملی، جس کے صفحے وقت کی دھول میں اٹے ہوئے تھے۔ اس نے بہت دھیان سے اسے وا کیا تو اس میں دبے ہوئے کچھ خشک پھولوں کے پتے نظر آئے۔"

– وہی رنگ اور وہی قسمیں جو اس نے اپنے خواب میں دیکھی تھیں۔

کتاب کے آخری صفحات پر ایک خط تھا، جو اس کے دادا جان نے اپنی جوانی میں لکھا تھا۔ اس میں انہوں نے ایک ایسے باغ کا ذکر کیا تھا جسے انہوں نے اپنی محبوبہ کی یاد میں بنایا تھا، ایک ایسا باغ جو ان کے ادھورے عشق کی نشانی تھا۔ انہوں نے اس میں ان تمام پھولوں کو لگایا تھا جو ان کی محبوبہ کو پسند تھے۔ خط میں انہوں نے اس جھیل کا بھی ذکر کیا تھا جہاں وہ دونوں گھنٹوں بیٹھا کرتے تھے۔

"خط نے زریں کی آنکھوں کو اشکبار کر دیا۔ اس پر اس کے خواب کا مفہوم واضح ہو گیا۔ وہ دھندلا سا چہرہ اس کے دادا جان کی کسی عزیزہ کا تھا۔" 

 ایک ایسی محبت جو ادھوری رہ گئی تھی اور ان کے دل میں ایک دائمی کسک بن گئی تھی۔

زریں نے اس ویران باغ کی مٹی کو چھوا۔ اب اسے اس ادھورے خواب کا ادراک ہو گیا تھا۔ یہ صرف ایک خواب نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی وراثت تھی جو اسے اپنے اجداد سے ملی تھی۔ ایک ادھوری محبت کی کہانی، جو وقت کی گرد میں دفن ہو گئی تھی۔

شام ڈھل رہی تھی اور اندھیرا آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا۔ زریں نے اس جگہ کو الوداع کہا۔ اس کا خواب اب بھی ادھورا تھا، لیکن اب وہ اس ادھورے پن کے بوجھ کو سمجھ چکی تھی۔ یہ ایک ایسی یاد تھی جسے وہ ہمیشہ اپنے دل میں زندہ رکھے گی۔

مرکزی خیال:

بالآخر، کہانی یہ پیغام دیتی ہے کہ ماضی کو جاننا اور سمجھنا ہمارے حال کو بہتر طور پر سمجھنے اور قبول کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، اور بعض اوقات ادھورے خواب بھی زندگی کے اہم سبق اور پوشیدہ رابطوں کو آشکار کر سکتے ہیں۔



Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !