امید کا چراغ

Alham Sania
0

 

  "امید کا چراغ"

عائشہ ایک دور دراز گاؤں میں رہتی تھی، جہاں سہولیات کا فقدان تھا اور اکثر بجلی غائب ہو جاتی تھی۔ جب اندھیرا چھا جاتا، تو گاؤں والے بے بسی سے چراغوں اور موم بتیوں کی مدد سے گزارا کرتے۔ عائشہ، جو ابھی بچپن کی دہلیز پر تھی، اس تاریکی سے بہت ڈرتی تھی۔ اندھیرا اس کے دل میں انجانے خوف پیدا کرتا تھا۔

ایک رات، جب بجلی کی آنکھ مچولی پھر شروع ہوئی، عائشہ نے اپنی دادی سے اپنے اندھیرے کے خوف کا اظہار کیا۔ دادی جو زندگی کے تجربات سے مالا مال تھیں، نے مسکراتے ہوئے کہا، "بیٹی، اندھیرا روشنی کی غیر موجودگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگر تم روشنی پیدا کرو گی، تو اندھیرا خود بخود غائب ہو جائے گا۔"

امید کا چراغ

عائشہ نے دادی کی دانائی کو سمجھا اور فوراً ایک چھوٹا سا چراغ روشن کیا۔ اس نے اس چراغ کی روشنی کو پورے گھر میں پھیلایا۔ آہستہ آہستہ، اندھیرے نے دم توڑنا شروع کیا اور عائشہ کے دل سے خوف کا بادل چھٹ گیا۔ اس رات، عائشہ نے ایک قیمتی سبق سیکھا کہ امید کی چھوٹی سی کرن بھی تاریکی کے گھنے بادلوں کو چیر سکتی ہے۔

اس واقعہ کے بعد، عائشہ نے اندھیرے سے ڈرنا چھوڑ دیا۔ اس نے اپنے گاؤں والوں کو بھی روشنی کی اہمیت سمجھائی۔ وہ جانتی تھی کہ مشکل وقت میں بھی امید کا چراغ جلائے رکھنا کتنا ضروری ہے۔ عائشہ نے اپنے گاؤں میں اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دیا۔ اس نے لوگوں کو سکھایا کہ کس طرح ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے اور تاریکی کے لمحات میں امید اور روشنی بننا ہے۔

عائشہ کی کوششوں سے پورے گاؤں میں محبت اور امید کی روشنی پھیل گئی۔ اس نے لوگوں کو سکھایا کہ زندگی میں مشکلات آتی رہتی ہیں، لیکن ہمیں کبھی بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ ہمیشہ امید کا دامن تھامے رکھو اور روشنی کی طرف بڑھتے رہو۔

اس کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے

کہ امید کبھی نہیں چھوڑنی چاہیے۔ اندھیرے سے مراد مشکلات اور مایوسی ہے، اور روشنی سے مراد امید اور مثبت سوچ ہے۔ عائشہ کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر ہم امید کا چراغ جلائے رکھیں تو ہم کسی بھی مشکل پر قابو پا سکتے ہیں۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !