مشکل میں آسانی

Alham Sania
1

 "مشکل میں آسانی"

ایک پرسکون اور سرسبز گاؤں تھا، جس کے چاروں طرف لہلہاتے ہوئے کھیت اور پھلوں کے باغات تھے۔ اس گاؤں میں رحیم نامی ایک کسان رہتا تھا، جو اپنی محنت، ایمانداری اور سمجھداری کے لیے جانا جاتا تھا۔ رحیم اپنی زمین سے بے حد محبت کرتا تھا اور صبح سویرے اٹھ کر اپنے کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ اس کے پاس ایک چھوٹا سا خاندان تھا جس میں اس کی بیوی اور دو بچے شامل تھے، اور وہ اپنی محنت کی کمائی سے خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔

مشکل میں آسانی

ہر سال، بارشیں بروقت ہوتی تھیں اور کھیتوں میں فصلیں خوب لہلہاتیں تھیں۔ گاؤں کے لوگ خوشحال تھے اور ان کی زندگی سکون سے گزر رہی تھی۔ لیکن ایک سال، قدرت نے اپنا رخ بدل لیا۔ موسم گرما گزر گیا اور ساون کا مہینہ شروع ہو گیا، لیکن بارش کا کوئی نشان نظر نہیں آیا۔ آسمان پر بادل تو آتے تھے، لیکن بغیر برسے ہی چلے جاتے تھے۔

وقت گزرتا گیا اور خشک سالی کی صورتحال سنگین ہوتی چلی گئی۔ کھیتوں کی مٹی سوکھ کر سخت ہو گئی اور فصلیں مرجھانے لگیں۔ کسان آسمان کی طرف حسرت سے دیکھتے رہتے، لیکن بارش کی ایک بوند بھی نہ برستی۔ گاؤں کے تالاب اور جوہڑ بھی آہستہ آہستہ سوکھنے لگے اور پانی کی قلت بڑھنے لگی.

مشکل میں آسانی

رحیم کی حالت بھی دوسرے کسانوں سے مختلف نہ تھی۔ اس کی ساری محنت اکارت جا رہی تھی، اور اسے اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ وہ اپنی زمین کو دیکھ رہا تھا جسے سیراب کرنے کی ضرورت تھی

اس نے ہر ممکن کوشش کی، لیکن پانی کی کمی کی وجہ سے سب بے سود تھا۔

گاؤں کے قریب ایک بڑا تالاب تھا جو عام طور پر بارش کے پانی سے لبالب بھرا رہتا تھا۔ یہ تالاب گاؤں والوں کے مویشیوں اور کچھ حد تک کھیتوں کے لیے بھی پانی کا ذریعہ تھا۔ لیکن اس سال، وہ تالاب بھی خشک ہو چکا تھا اور اس میں مٹی کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ گاؤں والوں کو پینے کے پانی کے لیے بھی دور دراز کے علاقوں سے پانی لانا پڑ رہا تھا، جو کہ ایک مشکل اور وقت طلب کام تھا۔

ایسے نازک وقت میں، گاؤں کے ایک زمیندار، جس کا نام حامد تھا، نے ایک اعلان کیا۔ حامد ایک دولت مند اور خود غرض شخص تھا، جو ہمیشہ اپنے فائدے کے بارے میں سوچتا تھا۔ اس کے پاس گاؤں کے باہر ایک ذاتی کنواں تھا جس میں ابھی بھی کچھ پانی موجود تھا۔ حامد نے اعلان کیا کہ وہ گاؤں والوں کو اس کنویں سے پانی فراہم کرے گا، لیکن اس کے بدلے میں وہ ان سے بھاری قیمت وصول کرے گا۔ اس نے پانی کی فی گھڑا قیمت مقرر کی جو عام حالات سے کئی گنا زیادہ تھی۔

گاؤں کے بیشتر غریب اور بے بس لوگ حامد کی اس ظالمانہ پیشکش پر اندر ہی اندر کڑھ رہے تھے، لیکن ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی پیاس بجھانے کے لیے حامد کی شرائط ماننے پر مجبور تھے۔ کچھ لوگوں نے اپنی جمع پونجی بیچ کر پانی خریدا، لیکن جلد ہی ان کے پاس پیسے ختم ہو گئے۔

رحیم ان لوگوں میں سے تھا جو حامد کی اس سودے بازی سے سخت ناراض تھا۔ اس کی غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ وہ اپنی زندگی کی بنیادی ضرورت کے لیے کسی لالچی شخص کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ اس نے محسوس کیا کہ حامد خشک سالی کی اس مصیبت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے اور گاؤں والوں کو لوٹ رہا ہے۔

رحیم نے گاؤں کے بزرگوں اور معززین سے ملاقات کی اور ان سے اس صورتحال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ اس نے انہیں حامد کی لالچ کے بارے میں بتایا اور کوئی ایسا حل نکالنے کی درخواست کی جس سے گاؤں والے اس مشکل سے نکل سکیں۔ بزرگوں نے بھی رحیم کی بات سے اتفاق کیا، لیکن فوری طور پر کوئی واضح حل نظر نہیں آیا۔ سبھی قدرت کی بے رحمی اور حامد کی سنگدلی پر افسوس کر رہے تھے۔

مشکل میں آسانی

لیکن رحیم ایک ایسا شخص نہیں تھا جو آسانی سے ہار مان لے۔ اس کے اندر ایک مضبوط عزم تھا اور وہ اپنے گاؤں والوں کو اس مصیبت سے نجات دلانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔ اس نے خود ہی کوئی راستہ تلاش کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں غور و فکر کرنا شروع کر دیا۔

ایک دن، جب رحیم اپنے سوکھے ہوئے کھیتوں میں اداس بیٹھا تھا، تو اس کی نظر ایک پرانے اور بند کنویں پر پڑی۔ یہ کنواں اس کے کھیت کے ایک کونے میں واقع تھا اور برسوں سے استعمال نہیں ہوا تھا۔ اس کے ارد گرد خاردار جھاڑیاں اور لمبی گھاس اگ آئی تھی، جس کی وجہ سے یہ آسانی سے نظر نہیں آتا تھا۔

رحیم کو اچانک اپنے دادا کی ایک پرانی بات یاد آئی۔ اس کے دادا نے اسے بتایا تھا کہ اس کنویں میں کبھی بہت میٹھا اور صاف پانی ہوا کرتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کنواں بند ہو گیا اور کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں دی۔

رحیم کے دل میں ایک دم سے امید کی ایک کرن چمکی۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس پرانے اور متروک کنویں کو دوبارہ کھود کر دیکھا جائے۔ اگر اس میں تھوڑا سا بھی پانی نکل آئے تو یہ گاؤں والوں کے لیے ایک بڑی مدد ثابت ہو سکتا ہے۔

رحیم نے فوراً گاؤں کے کچھ نوجوانوں کو جمع کیا جن میں ہمت اور جذبہ تھا۔ اس نے انہیں اپنے منصوبے کے بارے میں بتایا اور انہیں اس پرانے کنویں کو دوبارہ کھودنے میں مدد کرنے کی درخواست کی۔ پہلے تو کچھ نوجوان ہچکچائے کیونکہ وہ کنواں بہت پرانا تھا اور انہیں یقین نہیں تھا کہ اتنے سالوں بعد اس میں دوبارہ پانی نکلے گا۔ انہوں نے اس کام کو وقت اور محنت کا ضیاع سمجھا۔

لیکن رحیم کے پرجوش اور پرامید انداز نے ان کے دلوں میں بھی حوصلہ پیدا کر دیا۔ رحیم نے انہیں بتایا کہ ہمیں کوشش ضرور کرنی چاہیے اور امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس کی باتوں میں اتنا یقین تھا کہ نوجوان اس کی مدد کرنے کے لیے راضی ہو گئے۔

اگلے کئی دنوں تک رحیم اور گاؤں کے نوجوانوں نے مل کر اس پرانے کنویں کی صفائی کا کام شروع کیا۔ کنویں کے اندر مٹی، پتھر اور کوڑا کرکٹ بھرا ہوا تھا۔ انہیں جھاڑیوں اور گھاس کو صاف کرنے میں بھی کافی محنت کرنا پڑی۔ کام بہت مشکل اور تھکا دینے والا تھا، لیکن کسی نے بھی ہمت نہیں ہاری۔ وہ صبح سے شام تک مسلسل کام کرتے رہے، اپنی پیاس اور جسمانی تکلیف کو بھول کر۔ رحیم خود بھی ان کے ساتھ برابر کا کام کر رہا تھا اور انہیں حوصلہ دے رہا تھا۔

مشکل میں آسانی

آخر کار، ان کی انتھک محنت رنگ لائی۔ جب انہوں نے کافی گہرائی تک کھودا تو انہیں گیلی مٹی محسوس ہوئی۔ یہ ایک واضح اشارہ تھا کہ زمین کے اندر پانی موجود ہے۔ ان کی امیدیں اور بڑھ گئیں اور انہوں نے اور زیادہ جوش و خروش سے کھودنا شروع کر دیا۔ اور پھر، وہ مبارک لمحہ آ گیا جب کنویں کے نچلے حصے سے صاف اور ٹھنڈا پانی ابلنا شروع ہو گیا۔

گاؤں والے یہ خوشخبری سن کر خوشی سے جھوم اٹھے۔ جو لوگ حامد سے مہنگا پانی خریدنے پر مجبور تھے، ان کے چہروں پر بھی امید کی چمک لوٹ آئی۔ وہ سب دوڑ کر اس پرانے کنویں پر آئے اور اپنی آنکھوں سے پانی کو ابلتے ہوئے دیکھا۔ رحیم کی حکمت، دور اندیشی اور انتھک محنت نے پورے گاؤں کو خشک سالی کی مصیبت سے نجات دلا دی تھی۔

جب لالچی زمیندار حامد کو اس واقعے کا علم ہوا تو وہ بہت شرمندہ ہوا۔ اس کی لالچ اور خود غرضی کے مقابلے میں رحیم کی سخاوت اور ہمدردی نے سب کے دل جیت لیے تھے۔ گاؤں والوں نے رحیم کا شکریہ ادا کیا اور اسے اپنا محسن مانا۔ انہوں نے اس کی دانائی اور قیادت کی تعریف کی اور کہا کہ رحیم نے ثابت کر دیا کہ مشکل وقت میں بھی عقل اور اتحاد سے کام لیا جائے تو ہر مصیبت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

رحیم نے اس کنویں کے صاف پانی کو پورے گاؤں کے لیے مفت کر دیا۔ اس نے کہا کہ پانی خدا کی نعمت ہے اور اس پر سب کا حق ہے۔ اس کی اس فراخدلی اور انسانیت دوستی نے گاؤں والوں کے دلوں میں اس کے لیے اور بھی زیادہ عزت اور محبت پیدا کر دی۔

اس واقعے کے بعد، رحیم ایک عقلمند رہنما اور ایک ہیرو کی حیثیت سے پورے علاقے میں جانا جانے لگا۔ اس کی کہانی دور دراز کے گاؤں اور شہروں تک پھیل گئی اور لوگ اس کی حاضر دماغی، ہمدردی اور انسانیت دوستی کی مثالیں دینے لگے۔ رحیم نے ثابت کر دیا کہ حقیقی دولت زمین یا جائیداد نہیں، بلکہ عقل، محنت اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ ہے۔

اس کہانی سے ہمیں یہ اہم سبق ملتا ہے کہ مشکل حالات میں بھی ہمت اور عقل سے کام لینا چاہیے اور کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ دوسروں کی مدد کرنا اور مل جل کر کام کرنا ہمیشہ اچھے نتائج دیتا ہے۔ ایک چھوٹی سی کوشش اور ایک مثبت سوچ بڑی سے بڑی مصیبت کو بھی ٹال سکتے ہیں 

اس کہانی کا مركزی خیال ہے کہ :

 ضرورت کے وقت دوسروں کی مدد کرنا اور سخاوت کا مظاہرہ کرنا انسانیت کا اہم ترین پہلو ہے۔ رحیم کا کنویں کا پانی سب کے لیے مفت کر دینا اس کی بہترین مثال ہے۔


Post a Comment

1Comments
Post a Comment

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !