گمشدہ رنگوں کا باغ

Alham Sania
2

 "گمشدہ رنگوں کا باغ"

ایک زمانے کی بات ہے، ایک ایسی دنیا آباد تھی جہاں رنگ صرف بصری تجربہ نہیں تھے، بلکہ زندگی کی دھڑکن تھے۔ سورج ایک شاندار سنہری گیند کی مانند چمکتا تھا، جس کی شعاعیں ہر چیز کو ایک گرم اور خوشگوار روشنی میں نہلا دیتی تھیں۔ آسمان ایک وسیع نیلا قالین تھا، جس پر سفید بادل روئی کے گالوں کی طرح تیرتے رہتے تھے۔ اور زمین، سرسبز و شاداب جنگلات اور لہلہاتی ہوئی وادیوں سے مزین تھی، جو زمرد کے گہرے رنگوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ہر پتے کی رگوں میں زندگی رواں تھی، ہر پھول اپنی مخصوص رنگت میں کائنات کی خوبصورتی کا ترانہ گا رہا تھا۔

اس رنگین دنیا کے قلب میں ایک ایسا باغ واقع تھا جو اپنی مثال آپ تھا۔ یہ صرف پودوں اور پھولوں کا مجموعہ نہیں تھا، بلکہ یہ تمام تر خوبصورتی اور رنگوں کا ایک مقدس مقام تھا۔ اس باغ میں ایسے انوکھے پھول کھلتے تھے جن کی پنکھڑیاں قوس قزح کے تمام رنگوں سے کہیں زیادہ دلکش امتزاج پیش کرتی تھیں۔ کچھ پھول تو ایسے تھے جو ہر گھنٹے اپنی رنگت بدلتے تھے، گویا وہ فطرت کی ایک زندہ اور سانس لیتی ہوئی مصوری ہوں۔ ان پھولوں کی خوشبو اتنی دل فریب تھی کہ وہ ہوا میں گھل کر دور دور تک پھیل جاتی تھی، ہر نفس کو ایک جادوئی سرور سے بھر دیتی تھی۔

گمشدہ رنگوں کا باغ

 "اس دلکش باغ کی نگہبانی ایک عمر رسیدہ مالیہ کرتی تھی، جس کا نام روحی تھا۔ روحی محض ایک باغبان نہیں تھی؛ اس کا اندرون باغ کے پھولوں کی طرح شاداب اور منور تھا۔"

اور اس کی روح ان نازک پھولوں کی طرح نرم تھی۔ وہ باغ کے ہر پودے کو نام سے جانتی تھی، اس کی عمر اور اس کی خصوصیات سے واقف تھی۔

"وہ ہر ننھی کونپل کی اس طرح دیکھ بھال کرتی تھی جیسے وہ اس کی اپنی اولاد ہو۔ اس کے لمس میں ایک عجب تاثیر تھی، جو پژمردہ پودوں میں بھی نئی جان ڈال دیتی تھی۔"

 روحی کی محبت اور لگن ہی تھی جس نے باغ کو اس کی بے مثال خوبصورتی عطا کی تھی۔

 "مگر ایک صبح، جب روحی روزمرہ کے معمول کے مطابق باغ میں داخل ہوئی، تو اس کی نظر ایک ایسی چیز پر پڑی جس نے اس کے قدموں کو لڑکھڑا دیا۔ 

گمشدہ رنگوں کا باغ

باغ رنگوں کا ایک فسوں کن میلہ تھا، اب ایک بے رنگ منظر پیش کر رہا تھا۔ سنہری سورج کی چمک مدھم پڑ گئی تھی، گویا اس کی ساری توانائی سلب کر لی گئی ہو۔ نیلا آسمان ایک اداس اور بے جان سرمئی چادر میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اور زمردی جنگلات، جو کبھی زندگی سے بھرپور تھے، اب خاکی اور بے رونق دکھائی دے رہے تھے۔ باغ کے وہ شاندار پھول، جو اپنی رنگینی اور دلکشی کے لیے مشہور تھے، اپنی تمام تر رعنائی کھو چکے تھے اور سفید اور بے جان پتوں کے ڈھیر کی طرح نظر آ رہے تھے۔ ان کی مسحور کن خوشبو بھی غائب ہو چکی تھی، اور ہوا میں ایک اداس اور خالی سکوت طاری تھا۔

روحی کا دل گہرے غم سے بوجھل ہو گیا۔ یہ باغ صرف ایک جگہ نہیں تھی؛ یہ اس کی زندگی کا جوہر تھا، اس کی روح کا مسکن تھا۔ اس کے بغیر دنیا بالکل خالی، اداس اور بے معنی لگ رہی تھی۔ اس نے باغ کے ہر کونے میں بے تابی سے تلاش کی، ہر پتے کو الٹ پلٹ کر دیکھا، یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس خوفناک بے رنگی کا سبب کیا ہے۔ لیکن اسے کوئی سراغ نہیں ملا، کوئی ایسی علامت نہیں ملی جو اس ماورائی تبدیلی کی وضاحت کر سکے۔

پریشان حال اور مایوس روحی گاؤں کے بزرگوں کے پاس گئی، جو اپنی حکمت اور تجربے کے لیے مشہور تھے۔ اس نے انہیں باغ کی اس المناک صورتحال کے بارے میں بتایا، اپنی آنکھوں میں بے بسی اور دل میں گہرے دکھ کے ساتھ۔ بزرگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، ان کے چہروں پر بھی حیرانی اور تشویش کے آثار نمایاں تھے۔ انہوں نے اپنی تمام تر دانائی اور علم کو اکٹھا کیا، قدیم صحیفوں اور داستانوں کو کھنگالا، لیکن کوئی بھی اس ناگہانی بے رنگی کی منطقی وجہ نہیں بتا سکا۔

آخر کار، ایک دھول آلود اور بوسیدہ قدیم کتاب میں انہیں ایک مبہم افسانہ ملا۔ یہ کہانی صدیوں پہلے لکھی گئی تھی اور اس میں ایک ایسی دنیا کا ذکر تھا جہاں کبھی کبھار پراسرار قوتیں زندگی کے رنگ چوری کر لیتی تھیں۔ افسانے میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ان گمشدہ رنگوں کو واپس لانے کے لیے کسی جادو یا طاقت کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ ایک ایسے دل کی ضرورت ہوتی ہے جو خالص ہو اور ایک ایسی محبت کی جو سچی اور بے لوث ہو۔

روحی نے اس افسانے کو سنا اور اس کے دل میں ایک نئی امید کی کرن روشن ہوئی۔ اس نے فوراً فیصلہ کیا کہ وہ اپنے پیارے باغ کے رنگ ضرور واپس لائے گی۔ وہ ایک طویل اور کٹھن سفر پر نکلی، جس میں اسے گہرے اور خوفناک جنگلات کو عبور کرنا تھا، بلند و بالا اور برف پوش پہاڑوں پر چڑھنا تھا، اور وسیع و عریض اور تپتے ہوئے صحراؤں کو پار کرنا تھا۔ راستے میں اس نے بہت سے مختلف لوگوں سے ملاقات کی، جن میں سے کچھ نے اس کی ہمت افزائی کی اور اس کی مدد کے لیے آگے بڑھے، جبکہ کچھ نے اس کی اس امید پرستی کا مذاق اڑایا اور اسے واپس جانے کی نصیحت کی۔ لیکن روحی نے کسی کی نہ سنی؛ اس نے اپنے دل میں اس یقین کی شمع روشن رکھی کہ وہ ضرور کامیاب ہو گی۔

آخر کار، اپنی انتھک محنت اور لگن کے بعد، وہ ایک ایسی پرسکون اور مقدس جگہ پر پہنچی جہاں ایک قدیم چشمہ بہتا تھا۔ چشمے کا پانی اتنا صاف اور شفاف تھا کہ اس کے اندر پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے پتھر بھی واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے۔ اور اس پانی کے اندر ایک ہلکی سی، رقص کرتی ہوئی رنگین روشنی جھلملا رہی تھی، گویا وہ کھوئے ہوئے رنگوں کی سرگوشی ہو۔ روحی نے اپنے اندر ایک گہرا اور ناقابل بیان احساس محسوس کیا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں گمشدہ رنگ چھپے ہوئے ہیں۔

گمشدہ رنگوں کا باغ

وہ تھکے ہوئے قدموں سے چشمے کے کنارے بیٹھ گئی اور اپنے دل کی تمام تر محبت اور خلوص کو اکٹھا کرنے لگی۔ اس نے اپنے باغ کے ان خوبصورت اور روشن رنگوں کو یاد کیا جو اب ماند پڑ چکے تھے۔ اس نے ان کی دل فریب خوشبو کو اپنے تخیل میں محسوس کیا، اور ان کی جلد واپسی کے لیے گہرے دل سے دعا کرنے لگی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، جو اس کی سچی محبت، گہرے درد اور اٹوٹ عزم کی خاموش گواہی دے رہے تھے۔

اچانک، چشمے کے پانی میں ایک غیر معمولی اور زوردار چمک پیدا ہوئی۔ وہ ہلکی سی رنگین روشنی جو پہلے جھلملا رہی تھی، اب ایک تیز اور تابناک نور میں تبدیل ہو گئی۔ اور پھر، ایک معجزے کی طرح، وہ روشنی پانی سے نکل کر آہستہ آہستہ ہوا میں پھیلنے لگی۔ سب سے پہلے، سنہری رنگ آیا اور اس نے بے رونق سورج کو اپنی پرانی آب و تاب اور گرمی واپس دلا دی۔ پھر نیلا رنگ نمودار ہوا اور اس نے اداس آسمان کو ایک بار پھر اپنی وسیع اور روشن آغوش میں لے لیا۔ زمردی رنگ جنگلات میں پھیل گیا، ہر درخت اور ہر پتے کو زندگی کی نئی رمق بخشتا ہوا۔ اور آخر میں، باغ کے تمام وہ پھول جو اپنی رنگینی کھو چکے تھے، ایک ایک کر کے اپنی کھوئی ہوئی رعنائی میں دوبارہ کھل اٹھے، پہلے سے بھی زیادہ شاندار، دلکش اور جاندار۔

روحی خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ مسکرائی۔ اس کی سچی محبت اور اس کے خالص دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعا نے باغ کے گمشدہ رنگ واپس لا دیے تھے۔ وہ فوراً اپنے پیارے گاؤں واپس لوٹی اور سب کو یہ خوشخبری سنائی۔ گاؤں کے تمام لوگ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے روحی کی ہمت، محبت اور لگن کی بے حد تعریف کی اور اس کا شکریہ ادا کیا۔

گمشدہ رنگوں کا باغ

اس دن کے بعد، وہ باغ پہلے کی طرح ہمیشہ رنگین اور خوشبودار رہا، اور روحی نے اپنی آخری سانس تک اس کی دیکھ بھال کی، اپنے دل کی گہری محبت سے اسے سیراب کرتی رہی۔ یہ کہانی اس ابدی سچائی کی یاد دلاتی ہے کہ سچی محبت اور ایک خالص دل میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ کھوئی ہوئی خوبصورتی کو بھی واپس لا سکتی ہے اور دنیا کو ایک بار پھر روشن اور رنگین بنا سکتی ہے۔

اس کہا نی کا مرکزی خیال یہ ہے :

خالص دل سے کی گئی چھوٹی سی کوشش بھی بڑی تبدیلی لا سکتی ہے، اور جب ہم اپنی اندرونی خوبصورتی اور محبت کو بروئے کار لاتے ہیں، تو ہم اپنے اردگرد کی دنیا کو روشن اور رنگین بنا سکتے ہیں۔

Post a Comment

2Comments
Post a Comment

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !