علم کی روشنی

Alham Sania
0

 "علم کی روشنی"

ایک وسیع و عریض شہر کے پرسکون اور قدرے پوشیدہ کونے میں، ایک دلکش اور صدیوں پرانا کتب خانہ واقع تھا۔ اس کتب خانے کا نام، جو اس کی روح کی عکاسی کرتا تھا، "علم کا گھر" تھا۔ یہ محض اینٹوں اور پتھروں سے بنی ایک عمارت نہیں تھی، بلکہ یہ انوکھی اور نایاب کتابوں کا ایک بیش بہا خزانہ تھا، جو مختلف زمانوں، ثقافتوں اور علوم کی داستانیں سناتا تھا۔ اس کتب خانے کی نگہبانی اور ملکیت ایک نہایت ہی قابل احترام، دانا اور تجربہ کار خاتون کے پاس تھی، جنہیں سب پیار اور عقیدت سے بی بی گل کہتے تھے۔ بی بی گل کی شخصیت میں ایک خاص کشش تھی؛ ان کی آنکھوں میں علم کی چمک اور باتوں میں حکمت کی مٹھاس گھلی ہوئی تھی۔ انہیں کتابوں سے ایک گہرا اور روحانی لگاؤ تھا، اور وہ ہر زائر کو علم کی لازوال اہمیت سے آگاہ کرتی تھیں۔ ان کے نزدیک ہر کتاب ایک ایسا دروازہ تھا جو ایک نئی دنیا، ایک نیا خیال اور ایک نیا سبق کھولتا تھا۔

علم کی روشنی

"علم کا گھر" شہر کے ان چند پرسکون مقامات میں سے ایک تھا جہاں وقت کی رفتار بھی دھیمی پڑ جاتی تھی۔ یہاں اکثر شہر کے دانشور، محقق، علم کے پیاسے طالب علم اور وہ لوگ آتے تھے جن کے دلوں میں کہانیوں اور ادب کی لازوال محبت رچی بسی تھی۔ ہر آنے والا بی بی گل کے وسیع علم، ان کی دلنشین گفتگو اور ان کی مہمان نوازی سے بے حد متاثر ہوتا تھا۔ بی بی گل ہر ایک کی بات توجہ سے سنتیں، ان کے سوالوں کے تسلی بخش جواب دیتیں اور انہیں ان کی دلچسپی کے مطابق کتابیں تجویز کرتیں۔

ایسے ہی ایک روشن دن، جب سورج کی سنہری شعاعیں کتب خانے کی گرد آلود کھڑکیوں سے چھن کر اندر داخل ہو رہی تھیں

فرحان ایک روشن ذہن اور تجسس سے بھرپور نوجوان "علم کے گھر" پہنچا۔ بدقسمتی سے، اس کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ نئی کتابیں خرید کر اپنی علمی پیاس بھجا سکے ۔

اس کے دل میں علم حاصل کرنے کی ایک گہری خواہش تھی ۔وہ اکثر شہر کے کتب خانوں کے باہر کھڑا کتابوں کو حسرت سے دیکھتا رہتا تھا۔ بالآخر، کسی نے اسے "علم کا گھر" کے بارے میں بتایا، اور وہ ایک امید کے ساتھ یہاں آیا۔

فرحان نے بی بی گل کے سامنے اپنی مشکل اور علم کی اپنی شدید خواہش کا اظہار کیا۔ اس نے بتایا کہ کس طرح وہ نئی کتابیں خریدنے کے لیے مالی وسائل نہیں رکھتا اور کس طرح اس کی علمی پیاس اسے بے چین رکھتی ہے۔ بی بی گل نے فرحان کی بات نہایت غور سے سنی اور اس کی آنکھوں میں علم کی سچی طلب کو محسوس کیا۔ ان کے چہرے پر ایک نرم مسکراہٹ آئی اور انہوں نے فرحان کا ہاتھ پکڑ کر اسے کتب خانے کے ایک پرسکون اور خاموش گوشے میں لے گئیں، جہاں پرانی اور استعمال شدہ کتابوں کا ایک وسیع ذخیرہ موجود تھا۔

علم کی روشنی

انہوں نے فرحان کی طرف شفقت بھری نظروں سے دیکھا اور کہا، "بیٹا، یہ تمام کتابیں تمہارے لیے ہیں۔ تم ان میں سے جو چاہو پڑھ سکتے ہو، اور جب تم انہیں پڑھ چکو تو انہیں واپس دے جانا تاکہ کوئی اور ضرورت مند طالب علم بھی ان سے استفادہ حاصل کر سکے۔ علم تو ایک بہتا دریا ہے، اور اسے جتنا بانٹا جائے اتنا ہی بڑھتا ہے۔"

فرحان بی بی گل کے ان الفاظ کو سن کر خوشی سے پھولے نہیں سمایا۔ اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو آ گئے اور اس نے بی بی گل کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ اس دن سے فرحان کا "علم کا گھر" میں روزانہ کا معمول بن گیا۔ وہ صبح سویرے آتا اور شام تکوہ مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھنے میں مشغول رہتا تھا۔ اس نے تاریخ کے ابواب پڑھے، سائنس کے مشکل تصورات کو سمجھا، ادب کی خوبصورتی سے محظوظ ہوا اور دلچسپ کہانیوں کی خیالی دنیاؤں میں کھو گیا

ہر کتاب اس کے لیے ایک نئی کھڑکی تھی جو علم اور سمجھ کے ایک نئے منظر کی طرف کھلتی تھی۔ اس طرح مطالعہ کرتے کرتے اس کی سوچ میں وسعت، فہم میں گہرائی اور علم میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

علم کی روشنی

وقت گزرتا گیا اور فرحان کی محنت اور لگن رنگ لائی۔ اس نے اپنی تعلیم کامیابی سے مکمل کی اور اپنی قابلیت اور علم کی بنیاد پر ایک اچھی نوکری حاصل کی۔ اب وہ ایک کامیاب اور باوقار نوجوان بن چکا تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود، وہ کبھی بھی بی بی گل اور "علم کا گھر" کو نہیں بھولا۔ وہ اکثر فرصت کے اوقات میں کتب خانے جاتا اور بی بی گل سے ملتا۔ اب وہ صرف ایک طالب علم نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا فرد تھا جو علم کی قدر و قیمت کو سمجھتا تھا۔ اس لیے وہ خود بھی نئی اور قیمتی کتابیں خرید کر "علم کا گھر" کو عطیہ کرتا تاکہ دوسرے ضرورت مند طالب علم بھی ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔

بی بی گل فرحان کی ترقی اور اس کے نیک عمل دیکھ کر بہت خوش ہوتیں۔ انہیں اس بات کی اطمینان ہوتا تھا کہ ان کی محنت اور علم کی لگائی ہوئی شمع آج ایک روشن چراغ بن چکی ہے۔ "علم کا گھر" صرف ایک کتب خانہ نہیں رہا تھا، بلکہ یہ علم کی روشنی پھیلانے کا ایک ایسا مرکز بن گیا تھا جہاں سے ہر آنے والا کچھ نہ کچھ سیکھ کر جاتا تھا۔ یہ ان گنت لوگوں کے لیے امید کی کرن اور علم کی پیاس بجھانے کا ایک ذریعہ تھا۔

اس کہانی کا نچوڑ یہ ہے کہ:

 علم ایک ایسا انمول خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا، بلکہ بانٹنے سے اور بڑھتا ہے۔ ہمیں اسے حاصل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اور یہ بھی کہ ایک چھوٹی سی مخلصانہ مدد بھی کسی کی زندگی میں ایک بڑا اور مثبت بدلاؤ لا سکتی ہے، جس کے اثرات دور رس ہوتے ہیں۔ بی بی گل اور فرحان کی کہانی علم کی طاقت، سخاوت کی اہمیت اور انسانیت کی عظمت کی ایک لازوال مثال ہے۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !