"وطن کی مٹی"
ایک دور افتادہ اور سرسبز و شاداب وادی میں، جہاں بلند و بالا پہاڑ آسمان سے باتیں کرتے تھے اور شفاف پانی کی ندیاں بل کھاتی ہوئی گزرتی تھیں، ایک چھوٹا سا گاؤں آباد تھا۔ اس گاؤں کے لوگ اپنی محنت، ایمانداری اور ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت کے جذبے کے لیے جانے جاتے تھے۔ گاؤں کے وسط میں ایک قدیم برگد کا درخت تھا، جو صدیوں سے وہاں کھڑا تھا اور گاؤں کی تاریخ کا خاموش گواہ تھا۔
اسی گاؤں میں ایک نوجوان لڑکا رہتا تھا جس کا نام عادل تھا۔ عادل ایک ذہین اور محنتی نوجوان تھا، لیکن اس کے دل میں ایک بڑا خواب پل رہا تھا۔ وہ اپنی وادی سے باہر کی دنیا دیکھنا چاہتا تھا، نئے لوگوں سے ملنا چاہتا تھا اور علم و حکمت کے نئے در وا کرنا چاہتا تھا۔ گاؤں کے بزرگ اسے اپنی زمینوں اور روایات سے جڑے رہنے کی نصیحت کرتے تھے، لیکن عادل کا شوق ایک بے چین دریا کی طرح تھا جو اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہنا چاہتا تھا۔
عادل کے والد، جو گاؤں کے ایک معزز کسان تھے، اس کی خواہش کو سمجھتے تھے لیکن وہ اپنی تنہائی اور بڑھاپے کے باعث عادل کو دور جانے کی اجازت دینے سے ہچکچا رہے تھے۔ عادل کی ماں کا برسوں پہلے انتقال ہو گیا تھا اور اب گھر میں صرف وہ دونوں ہی تھے۔ عادل اپنے والد کی خدمت بھی کرنا چاہتا تھا اور اپنے خواب کو بھی پورا کرنا چاہتا تھا۔ یہ ایک ایسی کشمکش تھی جس نے اس کے دل کو بے چین کر رکھا تھا۔
ایک دن گاؤں میں ایک قافلہ آیا۔ یہ قافلہ دور دراز کے شہروں سے تجارت کے لیے آیا تھا اور کچھ دنوں کے لیے گاؤں میں رکا تھا۔ عادل نے قافلے کے لوگوں سے بات کی اور ان کے سفر کے قصے سنے۔ ان کی باتوں نے عادل کے شوق کو اور بھی بھڑکا دیا۔ اس نے قافلے کے سردار سے درخواست کی کہ کیا وہ اسے اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔ سردار جو ایک تجربہ کار اور سمجھدار شخص تھا، نے عادل کی آنکھوں میں چھپی ہوئی تڑپ کو بھانپ لیا۔ اس نے عادل سے کچھ سوالات کیے اور اس کی ذہانت اور حوصلے سے متاثر ہوا۔
سردار نے عادل کے والد سے بات کی اور انہیں یقین دلایا کہ وہ عادل کا خیال رکھے گا۔ عادل کے والد نے بڑی مشکل سے اجازت دی، لیکن انہوں نے عادل کو نصیحت کی کہ وہ ہمیشہ اپنے گاؤں اور اپنی روایات کو یاد رکھے اور کبھی کسی کو دھوکا نہ دے۔ عادل نے اپنے والد کے پاؤں چھو کر ان سے دعا لی اور قافلے کے ساتھ روانہ ہو گیا۔
عادل کے لیے یہ ایک نئی دنیا تھی۔ اس نے بڑے بڑے شہر دیکھے، مختلف ثقافتوں کے لوگوں سے ملا، اور علم و حکمت کی نئی باتیں سیکھیں۔ اس نے تجارت کے اصولوں کو سمجھا اور اپنی محنت اور ایمانداری سے قافلے کے سردار کا اعتماد جیت لیا۔ کئی سال گزر گئے اور عادل ایک کامیاب تاجر بن گیا۔ اس کے پاس دولت بھی تھی اور تجربہ بھی۔ لیکن اس کے دل میں اپنے گاؤں کی یاد ہمیشہ تازہ رہی۔ اسے اپنے والد کی تنہائی کا خیال آتا اور وہ ان سے ملنے کے لیے بے چین رہتا۔
ایک دن عادل نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنے گاؤں واپس جائے گا۔ اس نے بہت سارے تحائف خریدے اور ایک قافلہ تیار کر کے اپنی وادی کی طرف روانہ ہوا۔ جب وہ اپنے گاؤں پہنچا تو اسے پہچاننے میں کچھ وقت لگا۔ برسوں میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔ کچھ پرانے گھر گر چکے تھے اور کچھ نئے بن گئے تھے۔ لیکن وہ برگد کا درخت ابھی بھی وہیں کھڑا تھا، اپنی پرانی عظمت کے ساتھ۔
عادل سیدھا اپنے گھر گیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک بوڑھی عورت نے دروازہ کھولا۔ عادل نے اسے پہچانا – یہ اس کے بچپن کی پڑوسن تھی۔ اس نے عادل کو فوراً پہچان لیا اور خوشی سے چیخ اٹھی۔ "عادل! تم واپس آ گئے؟"
عادل اندر داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ اس کے والد ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ وہ بہت کمزور ہو گئے تھے۔ عادل دوڑ کر ان کے پاس گیا اور ان کے قدموں کو چوم لیا۔ عادل کے والد نے اپنی کمزور آنکھوں سے اسے دیکھا اور ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو گلے لگایا اور دیر تک روتے رہے۔
عادل نے اپنے والد کی خوب خدمت کی اور ان کا خیال رکھا۔ اس نے گاؤں والوں کے لیے بہت سارے تحائف لائے تھے جو اس نے ان میں تقسیم کیے۔ گاؤں والے عادل کی کامیابی پر بہت خوش تھے اور اس کا بہت احترام کرتے تھے۔ عادل نے اپنے والد کے ساتھ کچھ دن گاؤں میں گزارے اور ان سے ڈھیر ساری باتیں کیں۔ اس نے انہیں اپنے سفر کے قصے سنائے اور ان سے گاؤں کے حالات کے بارے میں پوچھا۔
عادل نے محسوس کیا کہ اگرچہ اس نے دنیا دیکھی اور بہت کچھ حاصل کیا، لیکن اس کے دل کا سکون اور خوشی اپنے گاؤں اور اپنے لوگوں کے درمیان ہی ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اب ہمیشہ اپنے والد کے ساتھ ہی رہے گا اور اپنے گاؤں کی خدمت کرے گا۔
کچھ عرصے بعد عادل کے والد کا انتقال ہو گیا۔ عادل نے ان کی یاد میں ایک بڑا صدقہ جاریہ کیا اور گاؤں کی ترقی کے لیے بہت سے کام کیے۔ اس نے ایک نیا سکول بنوایا اور غریبوں کی مدد کے لیے ایک فنڈ قائم کیا۔ عادل نے اپنی زندگی اپنے گاؤں کے لوگوں کے لیے وقف کر دی اور وہ ایک بار پھر اپنے لوگوں کے درمیان خوش و خرم زندگی گزارنے لگا۔ اس نے جان لیا تھا کہ حقیقی خوشی اور سکون اپنی جڑوں سے جڑے رہنے اور اپنے لوگوں کی خدمت کرنے میں ہی ہے۔ وہ برگد کا درخت آج بھی اس کی کہانی سناتا ہے، ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس نے اپنے خوابوں کی تعبیر بھی پائی اور اپنی مٹی سے محبت
کا ثبوت بھی دیا۔
مرکزی خیال:
کہانی میں محنت، ایمانداری، صبر اور بزرگوں کی نصیحت کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ عادل کی کامیابی اس کی محنت اور ایمانداری کا نتیجہ تھی، اور اس کا واپس لوٹنا اپنے والد کی نصیحت کو یاد رکھنے کی علامت ہے۔
Nice story
ReplyDelete