خوابوں کی تعبیر

Alham Sania
0

" خوابوں کی تعبیر"

فیصل آباد کے ایک دور افتادہ قصبے میں، جہاں زندگی کی رفتار سست اور سہولیات محدود تھیں، ایک نوجوان لڑکا رہتا تھا جس کا نام احمد تھا۔ احمد کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی، ایک ایسی ذہانت کی لو جو غربت کی دھند میں بھی مدھم نہیں پڑی تھی۔ اس کے والد، ایک سادہ اور محنتی شخص، قصبے کے بازار میں ایک چھوٹی سی دکان چلاتے تھے، جس سے ان کی آمدنی بمشکل اتنی ہوتی تھی کہ گھر کا خرچہ پورا ہو سکے۔ احمد کا بچپن سادگی اور محدود وسائل میں گزرا، لیکن اس کے دل میں علم کی پیاس کبھی کم نہیں ہوئی۔

خوابوں کی تعبیر

احمد نے اپنی ابتدائی تعلیم قصبے کے ایک بوسیدہ سرکاری سکول سے حاصل کی، جہاں سہولیات کا فقدان اور اساتذہ کی کمی عام تھی۔ لیکن احمد ایک غیر معمولی طالب علم تھا۔ وہ اپنی پرانی کتابوں کو بار بار پڑھتا، لائبریری نہ ہونے کے باوجود ہر اس شخص سے سوال کرتا جس کے پاس کوئی معلوماتی بات ہوتی۔ اس کی لگن اور جستجو اس کے اساتذہ کو بھی متاثر کرتی تھی، جو اپنی محدود استطاعت میں بھی اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

جب احمد نے اپنی میٹرک کی تعلیم مکمل کی، تو اس کے دل میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش اور بھی بڑھ گئی۔ وہ جانتا تھا کہ اگر اسے اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنا ہے تو اسے کسی بڑے شہر جانا پڑے گا، جہاں بہتر تعلیمی ادارے موجود ہوں۔ لیکن یہ ایک ایسا چیلنج تھا جس کا سامنا اس کے خاندان نے کبھی نہیں کیا تھا۔ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ احمد کو کسی دوسرے شہر میں بھیج کر اس کے رہائش، خوراک اور تعلیمی اخراجات برداشت کر سکیں۔ یہ ایک ایسی رکاوٹ تھی جو احمد کے روشن مستقبل کے سامنے ایک پہاڑ کی طرح کھڑی تھی۔

احمد نے اس مشکل صورتحال میں بھی ہمت نہیں ہاری۔ اس نے اپنے والدین کے ساتھ ایک سنجیدہ گفتگو کی، انہیں اپنے خوابوں اور اپنی تعلیم کی اہمیت کے بارے میں بتایا۔ اس نے انہیں یقین دلایا کہ وہ سخت محنت کرے گا، اپنی پڑھائی پر پوری توجہ دے گا اور ہر ممکن کوشش کرے گا کہ اسے کوئی وظیفہ مل جائے جس سے اس کے تعلیمی اخراجات میں مدد مل سکے۔ احمد کی آنکھوں میں موجود عزم اور اس کے لہجے میں موجود یقین نے اس کے والدین کے دل کو چھو لیا۔ انہوں نے اپنی محدود استطاعت کے باوجود اپنے بیٹے کے مستقبل کے لیے ایک بڑا فیصلہ کیا اور اسے شہر جانے کی اجازت دے دی۔

خوابوں کی تعبیر

احمد ایک بڑے شہر میں پہنچا تو اسے ایک نئی دنیا کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں زندگی تیز رفتار تھی اور ہر طرف مواقع موجود تھے۔ اس نے ایک اچھے کالج میں داخلہ لے لیا، لیکن اس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا تھا۔ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ کسی ہاسٹل میں رہ سکے، اس لیے اس نے کالج کے قریب ایک چھوٹے سے، تاریک اور غیر آرام دہ کمرے میں کرایہ پر رہائش اختیار کی۔ کمرے میں بنیادی سہولیات کا بھی فقدان تھا، لیکن احمد کے لیے یہ ایک عارضی قربانی تھی جو اسے اپنے بڑے مقصد تک پہنچنے میں مدد دے سکتی تھی۔

خوراک کا مسئلہ بھی ایک بڑا چیلنج تھا۔ احمد کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ ہر روز باہر سے کھانا کھا سکے، اس لیے اس نے خود ہی کھانا بنانا سیکھ لیا۔ وہ اکثر سستی غذائیں تیار کرتا اور اپنی صحت کا خیال رکھنے کی کوشش کرتا۔ اس نے اپنی تمام تر توجہ اپنی پڑھائی پر مرکوز رکھی۔ وہ دن رات محنت کرتا، کالج کی لائبریری میں گھنٹوں کتابیں پڑھتا اور اپنے اساتذہ سے ہر مشکل سوال پوچھتا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر اسے اپنے خواب پورے کرنے ہیں تو اسے اپنی تعلیم میں بہترین نتائج حاصل کرنے ہوں گے۔

خوابوں کی تعبیر

اپنی پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے اور اپنے رہائشی اور خوراک کے بل ادا کرنے کے لیے، احمد نے ایک پارٹ ٹائم نوکری تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے شہر کے مختلف ٹیوشن سینٹرز میں درخواستیں دیں اور آخر کار اسے ایک سینٹر میں بچوں کو پڑھانے کی نوکری مل گئی۔ وہ شام کے اوقات میں بچوں کو مختلف مضامین پڑھاتا اور اس سے جو پیسے ملتے تھے، وہ اپنی فیس اور دیگر ضروریات پر خرچ کرتا۔ یہ ایک مشکل روٹین تھی، جس میں وہ صبح سے شام تک پڑھائی اور کام میں مصروف رہتا، لیکن احمد نے کبھی شکایت نہیں کی۔ اس کے دل میں اپنے مقصد کو پانے کی ایک تڑپ تھی جو اسے ہر طرح کی تھکاوٹ اور مشکلات کو برداشت کرنے کی طاقت دیتی تھی۔

وقت گزرتا گیا اور احمد کی محنت رنگ لائی۔ اس نے اپنی گریجویشن کی تعلیم میں شاندار کامیابی حاصل کی، اپنی کلاس میں اول پوزیشن حاصل کی اور اپنے کالج کا نام روشن کر دیا۔ اس کی غیر معمولی کارکردگی کی بنیاد پر اسے ایک  یونیورسٹی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے وظیفہ مل گیا۔ یہ احمد کے لیے ایک خواب کے سچ ہونے جیسا تھا، اس کی برسوں کی محنت اور لگن کا ثمر تھا۔

خوابوں کی تعبیر

یونیورسٹی میں احمد کو بہترین اساتذہ اور جدید تعلیمی وسائل میسر آئے۔ اس نے اپنی پسند کے مضمون میں گہری دلچسپی لی اور اپنی تحقیق کو جاری رکھا۔ اس نے نہ صرف اپنی تعلیم مکمل کی بلکہ یونیورسٹی میں بھی نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ اس کی کامیابی کی کہانی شہر کے اخبارات میں بھی شائع ہوئی، جس سے اس کے قصبے کے لوگوں کو بھی اس کی کامیابی کے بارے میں معلوم ہوا۔

آج احمد ایک کامیاب انجینئر ہے اور ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ اس نے اپنی زندگی میں بہت ترقی کی ہے، لیکن وہ اپنے ماضی کو کبھی نہیں بھولا۔ وہ جانتا ہے کہ کن مشکل حالات میں اس نے تعلیم حاصل کی اور کس طرح مالی مشکلات نے بہت سے ہونہار طلباء کے مستقبل کو تاریک کر دیا ہے۔

اسی لیے احمد نے اپنے علاقے کے ان نوجوانوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا جو مالی مشکلات کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتے۔ اس نے ایک فاؤنڈیشن بنائی ہے جو غریب اور مستحق طلباء کو وظائف فراہم کرتی ہے، انہیں کتابیں اور دیگر تعلیمی مواد مہیا کرتی ہے اور ان کی رہنمائی کرتی ہے۔ احمد کی فاؤنڈیشن آج بہت سے نوجوانوں کے لیے امید کی ایک کرن بن چکی ہے، جو اس کی مدد سے اپنی تعلیم مکمل کر رہے ہیں اور اپنے خوابوں کو پورا کر رہے ہیں۔

احمد کی کہانی ایک ایسی روشن مثال ہے کہ اگر انسان میں سچی لگن، محنت اور ثابت قدمی ہو تو وہ کسی بھی مشکل کو عبور کر سکتا ہے۔ مالی مشکلات یا وسائل کی کمی کبھی بھی کسی کے خوابوں کو روک نہیں سکتی۔ اہم یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش جاری رکھیں اور کبھی بھی امید نہ چھوڑیں۔ تعلیم ایک ایسی طاقت ہے جو نہ صرف ایک فرد کی زندگی بدل سکتی ہے بلکہ پورے معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ احمد کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک غریب قصبے کا ایک عام سا لڑکا بھی اپنی تعلیم کی طاقت سے غیر معمولی کامیابی حاصل کر سکتا ہے اور دوسروں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔

مختصراً، کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ :

تعلیم اور محنت کسی بھی پس منظر کے شخص کو کامیابی دلا سکتی ہے اور اسے دوسروں کے لیے امید کی کرن بننے کے قابل بنا سکتی ہے۔



Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !