"پہاڑوں کی سرگوشی"
دور، بہت دور، جہاں آسمان زمین سے گلے ملتا دکھائی دیتا تھا، برف پوش چوٹیاں خاموشی سے کھڑی تھیں۔ یہ صرف پتھر اور برف کے بے جان ڈھیر نہیں تھے؛ ان کے سینوں میں صدیوں کی کہانیاں دفن تھیں، سرگوشیوں کی صورت میں جو ہوا کے دوش پر سفر کرتی تھیں۔
![]() |
"پہاڑ اور برف" |
ایک ایسی ہی وادی میں، ان بلند و بالا محافظوں کے دامن میں، ایک چھوٹا سا گاؤں آباد تھا۔ یہاں کے لوگ سادہ اور محنتی تھے، جن کی زندگی کا محور ان پہاڑوں سے جڑا تھا۔ وہ ان کی عظمت سے واقف تھے اور ان کی خاموشی میں پوشیدہ رازوں کا احترام کرتے تھے۔
بوڑھا رحیم اس گاؤں کا سب سے معمر شخص تھا۔ اس کی آنکھوں میں ان گنت موسموں کی جھلک تھی اور اس کے کان ان سرگوشیوں سے آشنا تھے جو عام طور پر کسی کو سنائی نہیں دیتی تھیں۔ وہ اکثر گاؤں کے نوجوانوں کو پہاڑوں کی کہانیاں سنایا کرتا تھا۔ یہ کہانیاں صرف تفریح کے لیے نہیں ہوتیں تھیں، بلکہ ان میں زندگی کے گہرے سبق اور حکمت پوشیدہ ہوتی تھی۔
ایک دن، گاؤں میں ایک نوجوان آیا جس کا نام فرید تھا۔ وہ شہر سے آیا تھا اور اس کی نظروں میں دنیا کو جاننے کی ایک بے چین جستجو تھی۔ فرید نے گاؤں کے لوگوں کی سادہ زندگی اور پہاڑوں کی خاموش عظمت کو حیرت سے دیکھا۔ وہ اکثر رحیم کے پاس بیٹھتا اور ان سے پہاڑوں کے بارے میں سوالات کرتا۔
"دادا جان، یہ پہاڑ اتنے خاموش کیوں ہیں؟ کیا ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں؟"
فرید نے ایک شام پوچھا جب سورج پہاڑوں کے پیچھے چھپ رہا تھا اور وادی میں سنہری روشنی پھیل رہی تھی۔
رحیم نے مسکرا کر فرید کی طرف دیکھا۔ "بیٹا، خاموشی کا مطلب یہ نہیں کہ کچھ کہا نہیں جا رہا۔ اصل میں، پہاڑ ہر وقت بولتے ہیں۔ بس انہیں سننے کے لیے ایک خاص دل اور کان چاہیے۔"
فرید نے حیرت سے پوچھا، "لیکن میں تو کوئی آواز نہیں سنتا۔"
"یہ آوازیں تیز و تند نہیں ہوتیں، فرید۔ یہ تو ہوا کی سرسراہٹ میں، پرندوں کی چہچہاہٹ میں، اور ندی کے بہتے پانی میں پنہاں ہوتی ہیں۔ اگر تم غور سے سنو تو تمہیں ان میں صدیوں کی داستانیں ملیں گی۔"
فرید نے رحیم کی باتوں پر غور کیا۔ اس دن سے اس نے پہاڑوں کو ایک نئی نظر سے دیکھنا شروع کیا۔ وہ اکثر اکیلا وادی میں گھومتا، کان لگا کر ان آوازوں کو سننے کی کوشش کرتا جن کا رحیم نے ذکر کیا تھا۔
شروع میں اسے صرف عام آوازیں ہی سنائی دیں۔ لیکن دھیرے دھیرے، جیسے جیسے اس کا دل اور دماغ پرسکون ہونے لگے، اسے محسوس ہوا کہ ان آوازوں کے پیچھے ایک گہرا پیغام چھپا ہے۔ ہوا کی ہر لہر ایک نئی کہانی سناتی تھی، پتھروں کی دراڑیں گزرے ہوئے وقتوں کی گواہی دیتی تھیں، اور ندی کا شور زندگی کے مسلسل بہاؤ کی یاد دلاتا تھا۔
![]() |
"فرید پہاڑ پر چرھ رہا" |
ایک دن، فرید ایک اونچی چوٹی پر چڑھ گیا۔ وہاں سے اس نے پوری وادی کو دیکھا۔ سورج کی روشنی میں پہاڑ اور بھی شاندار لگ رہے تھے۔ اچانک، اسے ایک دھیمی سی سرسراہٹ سنائی دی۔ یہ کسی جانی پہچانی آواز کی طرح تھی، لیکن اس میں ایک خاص اپنائیت اور سکون تھا۔
فرید نے اپنا دل کھول دیا اور اس سرگوشی کو سننے لگا۔ اسے محسوس ہوا جیسے پہاڑ اسے اپنی خاموش زبان میں کچھ کہہ رہے ہیں۔ وہ اسے صبر، برداشت، اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کا سبق دے رہے تھے۔
فرید نے وہ دن پہاڑ کی چوٹی پر گزارا۔ جب وہ نیچے اترا تو اس کا دل ایک نئے یقین اور سکون سے معمور تھا۔ اب وہ سمجھ گیا تھا کہ پہاڑوں کی خاموشی دراصل ایک گہری گفتگو ہے، ایک ایسی سرگوشی جو صرف ان لوگوں کو سنائی دیتی ہے جو سننے کے لیے تیار ہوں۔
اس دن کے بعد، فرید نے کبھی بھی پہاڑوں کو صرف پتھروں کا ڈھیر نہیں سمجھا۔ وہ جان گیا تھا کہ ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے، بس انہیں سننے کا حوصلہ اور صبر چاہیے۔ اور اس نے یہ بھی سیکھ لیا تھا کہ زندگی کی سب سے قیمتی باتیں اکثر خاموشی میں ہی پوشیدہ ہوتی ہیں۔ پہاڑوں کی سرگوشی نے فرید کی زندگی بدل دی تھی، اسے فطرت کے قریب کر دیا تھا اور اسے زندگی کے گہرے معانی سمجھا دیے تھے۔ اور اس طرح، وہ نوجوان جو کبھی شہر کی تیز و تند زندگی کا عادی تھا، اب ان خاموش پہاڑوں کی سرگوشیوں میں کھو گیا تھا
مرکزی خیال:
حقیقی علم اور سکون اکثر شور و غل میں نہیں، بلکہ خاموشی میں پایا جاتا ہے، اور فطرت اس خاموش حکمت کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔