" غرور کا سر نیچا"
ایک دور افتادہ، پرسکون گاؤں میں، جہاں کھیت لہلہاتے تھے اور ایک چھوٹی سی ندی بل کھاتی ہوئی گزرتی تھی، دو گہرے دوست رہتے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام تھا بھولا، جو اپنی سادگی اور معصومیت کے لیے مشہور تھا۔ دوسرا دوست تھا عقل مند، جو اپنے تیز دماغ اور حاضر جوابی پر بہت فخر کرتا تھا۔ عقل مند کو یہ یقین تھا کہ دنیا میں کوئی بھی اس سے زیادہ سمجھدار نہیں ہے۔
بھولا، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر تھا، اکثر ایسی باتیں اور حرکتیں کرتا تھا جن پر لوگ ہنستے تھے۔ وہ دل کا صاف اور مخلص تھا، لیکن دنیا کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں اسے ہمیشہ دشواری ہوتی تھی۔ عقل مند اس کے برعکس ہر معاملے میں اپنی رائے رکھتا تھا اور بھولا کو اکثر اس کی سادگی پر طعنے دیتا رہتا تھا۔
ایک روشن صبح، دونوں دوست قریبی بازار کی طرف روانہ ہوئے۔ بازار گاؤں سے کچھ دور تھا اور راستے میں انہیں ایک چھوٹی سی ندی پار کرنی پڑتی تھی۔ ندی پر ایک پرانا، لکڑی کا پل بنا ہوا تھا، جو اپنی بوسیدگی کے لیے مشہور تھا۔ پل کے تختے ڈھیلے ہو چکے تھے اور وہ ہر قدم پر چرر چرر کی آوازیں نکالتا تھا۔
جب دونوں دوست پل کے بیچ میں پہنچے، جہاں ندی سب سے گہری تھی، تو بھولا نے عقل مند کی طرف دیکھا اور اپنی مخصوص معصومیت سے پوچھا، "یار عقل مند، ایک بات بتاؤ۔ اگر خدانخواستہ یہ پل ابھی ٹوٹ گیا تو ہم کیا کریں گے؟"
عقل مند نے اپنی مونچھوں کو ایک فاتحانہ انداز میں مروڑا اور ایک گہری سانس لی، گویا وہ کوئی بہت بڑا انکشاف کرنے والا ہو۔ اس نے بھولا کی طرف ایک حقارت آمیز نظر ڈالی اور کہا، "ارے بھولے، تم بھی کتنے سادہ لوح ہو۔ کیا تمہیں اتنی سی بات بھی نہیں معلوم؟ اگر یہ پل ٹوٹ گیا تو میں فوراً ندی میں چھلانگ لگا دوں گا اور تیرنا شروع کر دوں گا۔ میں بچپن سے ہی ایک بہترین تیراک ہوں۔ تیز ہوا اور طوفانی لہریں بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔" عقل مند نے یہ بات اتنے یقین سے کہی جیسے وہ کوئی اولمپک تیراکی کا چیمپئن ہو۔
بھولا نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے عقل مند کو دیکھا اور فکر مند لہجے میں پوچھا، "اور میں کیا کروں گا، یار عقل مند؟ مجھے تو تیرنا بالکل بھی نہیں آتا۔ میں نے تو کبھی پانی میں اترنے کی بھی ہمت نہیں کی۔" بھولا کا چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا تھا۔
عقل مند نے اپنے کندھے اچکائے اور ایک لاپرواہی بھرے انداز میں کہا، "تو پھر تم ڈوب جاؤ گے اور کیا؟ اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ جو تیرنا نہیں جانتا وہ پانی میں ڈوب ہی جاتا ہے۔ یہ تو قدرت کا اصول ہے۔" عقل مند نے یہ بات ایسے کہی جیسے بھولا کا ڈوب جانا ایک معمولی سی بات ہو۔
بھولا یہ سن کر بہت دل برداشتہ ہوا اور اس کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔ اس نے عقل مند کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھا اور کہا، "یار عقل مند، میں نے تو تمہیں اپنا سب سے اچھا دوست مانا تھا۔ کیا تم اتنے خود غرض ہو کہ مجھے بچانے کی کوشش بھی نہیں کرو گے؟ کیا ہماری دوستی اتنی ہی کمزور ہے؟" بھولا کی آواز میں دکھ اور مایوسی صاف جھلک رہی تھی۔
عقل مند پہلے تو بھولا کی پریشانی پر دل ہی دل میں ہنسا، لیکن پھر اسے لگا کہ شاید وہ کچھ زیادہ ہی سخت بات کہہ گیا۔ اس نے ایک مصنوعی مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجائی اور بولا، "ارے بھولے، تم بھی کتنے جذباتی ہو۔ میں تو صرف مذاق کر رہا تھا۔ بھلا میں تمہیں مصیبت میں کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ اگر پل ٹوٹ گیا تو ہم دونوں مل کر کسی طرح کنارے تک پہنچ جائیں گے۔ میں تمہیں پکڑ لوں گا یا کوئی اور ترکیب نکال لیں گے۔ فکر مت کرو، میں ہوں نا!" عقل مند نے بھولا کو تسلی دینے کی کوشش کی، لیکن اس کی آواز میں وہ خلوص نہیں تھا جو بھولا محسوس کر سکے۔
اتنے میں، جب عقل مند اپنی ہوشیاری کی باتیں کر رہا تھا اور بھولا خوفزدہ کھڑا تھا، پرانے لکڑی کے پل نے ایک زوردار چرچراہٹ کی آواز نکالی۔ بوسیدہ تختے ایک ساتھ ٹوٹ گئے اور دونوں دوست دھڑام سے ندی میں جا گرے۔ پانی ٹھنڈا تھا اور اس کا بہاؤ تیز تھا۔
اب عقل مند کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ جو بڑی بڑی باتیں کر رہا تھا، اسے تو ٹھیک سے تیرنا بھی نہیں آتا تھا۔ اس نے چند بار ہاتھ پاؤں مارے، لیکن جلد ہی وہ بے بسی محسوس کرنے لگا اور ڈوبنے لگا۔ اس کے چہرے پر خوف کے آثار نمایاں تھے۔
دوسری طرف، بھولا، جسے تیرنا نہیں آتا تھا، اس نے گھبراہٹ میں بھی عقل مندی سے کام لیا۔ اس نے عقل مند کو ڈوبتے ہوئے دیکھا تو فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بھولا طاقتور تھا اور اس نے اپنی پوری قوت لگا کر عقل مند کو کھینچنے کی کوشش شروع کر دی۔ پانی کے بہاؤ کے خلاف تیرنا مشکل تھا، لیکن بھولا نے ہمت نہیں ہاری۔
کافی جدوجہد کے بعد، بھولا کسی نہ کسی طرح عقل مند کو کھینچ کر ندی کے کنارے تک لے آیا۔ دونوں دوست بری طرح ہانپ رہے تھے اور ان کے کپڑے پانی سے شرابور تھے۔ عقل مند زمین پر ڈھیر ہو گیا اور گہری سانسیں لینے لگا۔
کچھ دیر بعد، جب عقل مند کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو اس نے بھولا کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں شرمندگی اور احسان مندی کے جذبات ملے ہوئے تھے۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا، "یار بھولا، تم نے تو آج میری جان بچائی۔ میں تو صرف باتیں ہی بناتا رہا اور مجھے تو تیرنا بھی ٹھیک سے نہیں آتا تھا۔ اگر تم نہ ہوتے تو میں ضرور ڈوب جاتا۔" عقل مند کی آواز میں سچائی اور پشیمانی تھی۔
بھولا نے مسکرا کر عقل مند کا ہاتھ تھپتھپایا اور کہا، "کوئی بات نہیں عقل مند۔ مشکل وقت میں عقل سے زیادہ دوست کی مدد کام آتی ہے۔ اور ویسے بھی، ڈوبنے سے بچنے کے لیے ہمیشہ تیرنا ضروری نہیں ہوتا، کبھی کبھی کسی دوست کا مضبوط ہاتھ بھی کافی ہوتا ہے۔"
یہ سن کر عقل مند کو اپنی غلطی کا گہرا احساس ہوا۔ اس نے بھولا سے معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی اپنی ہوشیاری پر اتنا غرور نہیں کرے گا اور ہمیشہ اپنے دوستوں کی قدر کرے گا۔ اس دن کے بعد سے عقل مند اور بھولا کی دوستی اور بھی مضبوط ہو گئی، اور عقل مند نے سمجھ لیا کہ سچی دوستی تمام عقلمندیوں سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ اور بھولا، اپنی سادگی کے باوجود، ثابت کر گیا کہ ضرورت کے وقت وہ عقل مند سے بھی زیادہ عقل استعمال کر سکتا ہے۔
اس کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے:
سادگی اور مخلص دوستی کبھی کبھی بڑی عقلمندی پر بھی غالب آ جاتی ہے