اندھے فقیر کی دعا

Alham Sania
1

 

"اندھے فقیر کی دعا"

شہر کے ایک کونے میں، ایک پرانی مسجد کے باہر، بابا نور ایک اندھے فقیر بیٹھے رہتے تھے۔ان کی آنکھوں کی خالی جگہیں ایک داستان سناتی تھیں جو وقت نے ان پر لکھی تھی۔ وہ ہر روز صبح سویرے اپنی جگہ پر آ بیٹھتے اور شام تک اپنی مدھر آواز میں دعائیں مانگتے رہتے۔ لوگ انہیں کچھ نہ کچھ دے جاتے، کسی کو اللہ کے نام پر اور کسی کو ان کی پرسوز آواز کے احترام میں۔


اندھے فقیر کی دعا

"اندھافقیر
"


بابا نور کی زندگی سادہ تھی، لیکن ان کا دل دنیا کے دکھوں سے ناواقف نہیں تھا۔ وہ لوگوں کی باتیں سنتے، ان کی پریشانیاں جانتے اور پھر اپنے رب کے حضور ان کے لیے دعا کرتے۔ ان کی دعا میں ایک عجیب تاثیر تھی، ایک خلوص تھا جو سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتا تھا۔

ایک دن، ایک نوجوان، جس کا نام علی تھا، بابا نور کے پاس سے گزرا۔ علی بے روزگار تھا اور کئی دنوں سے نوکری کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اس کے چہرے پر مایوسی کے آثار نمایاں تھے۔ جب اس نے بابا نور کی دعا سنی تو وہ رک گیا۔ بابا نور اس وقت کسی بیمار کے لیے صحت کی دعا مانگ رہے تھے۔ علی نے غور سے ان کی دعا سنی اور پھر آگے بڑھ گیا۔

اگلے دن علی پھر بابا نور کے پاس سے گزرا۔ اس بار بابا نور کسی بے اولاد جوڑے کے لیے اولاد کی دعا کر رہے تھے۔ علی کو بابا نور کی دعا میں ایک عجیب سکون محسوس ہوا۔ اس نے جیب سے کچھ پیسے نکالے اور بابا نور کے کشکول میں ڈال دیے۔

  "بابا جی، کیا آپ میرے لیے بھی دعا کریں گے؟" علی نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔

بابا نور نے اپنی خالی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا، گویا وہ اسے دیکھ سکتے ہوں۔ "بیٹا، تم کون ہو؟ اور تمہارا کیا دکھ ہے؟"

علی نے اپنی بے روزگاری کا حال سنایا۔ بابا نور نے خاموشی سے اس کی بات سنی اور پھر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگے۔ ان کی آواز میں وہی خلوص اور تاثیر تھی جو علی نے پہلے سنی تھی۔

 "یا اللہ، اس نوجوان پر اپنا کرم فرما۔ اسے روزگار عطا فرما جو اس کے لیے بہتر ہو۔ آمین۔"

علی نے بابا نور کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے چلا گیا۔ اسے یقین تو نہیں تھا کہ ایک اندھے فقیر کی دعا سے اس کی مشکل حل ہو جائے گی، لیکن بابا نور کی آواز میں کچھ ایسا تھا جس نے اس کے دل میں امید کی ایک کرن روشن کر دی تھی۔


اندھے فقیر کی دعا

"علی انٹرویودینے گیا"

کچھ دن گزر گئے۔ علی اب بھی اپنی نوکری کی تلاش میں مصروف تھا۔ ایک دن اسے ایک دفتر سے فون آیا۔ انہوں نے اسے انٹرویو کے لیے بلایا تھا۔ علی حیران رہ گیا، کیونکہ اس نے اس دفتر میں تو درخواست بھی نہیں دی تھی۔

انٹرویو بہت اچھا رہا اور علی کو نوکری مل گئی۔ وہ خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اتنی آسانی سے اسے نوکری مل گئی ہے۔

اگلے ہی دن علی بابا نور کے پاس گیا۔ اس نے بابا نور کے قدموں کو چھوا اور انہیں اپنی نوکری ملنے کی خبر سنائی۔

بابا نور مسکرائے۔ "بیٹا، یہ سب اللہ کا کرم ہے۔ اس نے میری دعا سن لی۔"

علی نے بابا نور کو ڈھیر ساری دعائیں دیں اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس دن سے علی بابا نور کا بہت احترام کرنے لگا۔ وہ اکثر ان کے پاس جاتا اور ان سے دعائیں کرواتا۔

شہر میں یہ بات پھیل گئی کہ بابا نور کی دعا میں بہت اثر ہے۔ لوگ اپنی مشکلات لے کر ان کے پاس آنے لگے اور بابا نور خلوص دل سے ان کے لیے دعا کرتے۔ کسی کو شفاء ملتی، کسی کو روزگار ملتا اور کسی کی کوئی اور مشکل آسان ہو جاتی۔

ایک دن کسی نے بابا نور سے پوچھا، "بابا جی، آپ تو اندھے ہیں، آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ کس کے لیے کیا دعا کرنی ہے اور کیا دعا قبول ہو گی؟"

بابا نور نے ایک گہری سانس لی اور کہا، "بیٹا، آنکھوں کی بینائی سب کچھ نہیں ہوتی۔ دل کی آنکھیں کھلی ہوں تو سب نظر آتا ہے۔ اور جہاں تک دعا کی قبولیت کا تعلق ہے، یہ میرا کام نہیں، میرے رب کا کام ہے۔ میں تو بس عاجزی سے اس سے مانگتا ہوں، باقی وہ جانتا ہے۔"

مركزی خیال:

بابا نور کی یہ بات سن کر لوگ خاموش ہو گئے۔ انہیں سمجھ آ گیا کہ اصل چیز دل کا خلوص اور اللہ پر یقین ہے۔ بابا نور اندھے ضرور تھے، لیکن ان کی دعا میں وہ روشنی تھی جو بہت سی بینا آنکھوں میں بھی نہیں ہوتی۔ ان کی دعا اندھیرے میں بھٹکتے لوگوں کے لیے ایک روشنی کا مینار تھی، ایک امید کی کرن تھی جو انہیں منزل کی طرف رہنمائی کرتی تھی۔ اور یوں، اندھے فقیر کی دعا شہر کے لوگوں کے لیے ایک مثال بن گئی جب دل سچائی سے پکارتا ہے، تو دعا بے اثر نہیں رہتی۔


Post a Comment

1Comments
Post a Comment

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !