"لالچی کسان اور سنہری انڈے"
ایک چھوٹے سے گاؤں میں رحیم نامی ایک غریب کسان رہتا تھا۔ وہ دن رات محنت کرتا، زمین میں ہل چلاتا اور فصلیں اگاتا، لیکن اس کی محنت کا پھل ہمیشہ کم ہی ملتا۔ اس کا چھوٹا سا گھر کچا تھا اور بمشکل ہی اس کے خاندان کے لیے دو وقت کی روٹی پوری ہو پاتی تھی۔ رحیم ایک نیک دل اور صابر شخص تھا، لیکن کبھی کبھار وہ اپنی غربت سے تنگ آ جاتا اور سوچتا کہ کیا کبھی اس کی قسمت بدلے گی۔
کیا آپ نے کبھی کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جو محنت تو بہت کرتا ہو لیکن اسے اس کی محنت کا صلہ نہ ملتا ہو؟ ایسے حالات میں انسان کیسا محسوس کرتا ہوگا؟
![]() |
"سنہری مرغی" |
ایک صبح، جب رحیم اپنے کھیت کی طرف جا رہا تھا، تو اس نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ اس کے کھیت میں ایک مرغی گھوم رہی تھی، لیکن یہ کوئی عام مرغی نہیں تھی۔ اس کے پر سنہری رنگ کے تھے اور وہ دھوپ میں چمک رہی تھی۔ رحیم نے پہلے کبھی ایسی مرغی نہیں دیکھی تھی۔ وہ حیران ہو کر اس کے قریب گیا اور اسے پکڑ لیا۔ مرغی نے کوئی مزاحمت نہیں کی، گویا وہ جانتی تھی کہ اسے کہاں جانا ہے۔ رحیم اسے اپنے گھر لے آیا۔
اگر آپ رحیم کی جگہ ہوتے تو آپ اس سنہری مرغی کو دیکھ کر کیا محسوس کرتے؟ کیا آپ اسے کوئی جادوئی مخلوق سمجھتے یا محض ایک اتفاق؟
اگلے دن، رحیم نے مرغی کے باڑے میں جا کر دیکھا تو اس کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ وہاں ایک سنہری انڈا پڑا ہوا تھا، جو کسی قیمتی دھات کی طرح چمک رہا تھا۔ رحیم نے وہ انڈا اٹھایا، یہ عام انڈوں سے کہیں زیادہ وزنی تھا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ کیا یہ سچ تھا؟
![]() |
"سنہری انڈا" |
آپ کے خیال میں رحیم نے اس انڈے کا کیا کیا ہوگا؟ کیا اس نے اسے فوراً بیچنے کا سوچا ہوگا یا وہ پہلے اس کی اصلیت جاننا چاہتا ہوگا؟
رحیم نے وہ سنہری انڈا بازار میں بیچا اور اسے اتنی رقم ملی کہ اس نے پہلے کبھی اتنی رقم ایک ساتھ نہیں دیکھی تھی۔ اس رقم سے اس نے اپنے کچھ پرانے قرضے چکائے اور اپنے گھر کی مرمت کروائی۔ اب اس کے پاس کچھ پیسے بچ گئے تھے جن سے وہ اپنے خاندان کے لیے اچھا کھانا اور کپڑے خرید سکتا تھا۔ ہر روز وہ مرغی ایک سنہری انڈا دیتی اور رحیم اسے بیچ کر امیر ہوتا چلا گیا۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دولت ملنے کے بعد انسان کی زندگی میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟ کیا یہ تبدیلیاں ہمیشہ مثبت ہوتی ہیں؟
وقت گزرتا گیا اور رحیم کی خوشحالی بڑھتی گئی۔ اس نے ایک بڑا سا گھر بنوا لیا، اچھے کپڑے پہنے لگا اور اب اسے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ لیکن دولت کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں ایک بری چیز نے بھی جگہ بنا لی – لالچ۔ اب وہ ہر روز ایک سنہری انڈے پر صبر نہیں کر پا رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ اس مرغی کے پیٹ میں ضرور بہت سارے سنہری انڈے ہوں گے۔ اگر وہ اس مرغی کو ذبح کر دے تو اسے ایک ہی بار میں اتنے انڈے مل جائیں گے کہ وہ پورے گاؤں کا امیر ترین آدمی بن جائے گا۔
کیا آپ کے خیال میں لالچ انسان کو کس حد تک اندھا کر سکتی ہے؟ کیا وہ اپنی موجودہ نعمتوں کی بھی قدر بھول جاتا ہے؟
ایک دن، لالچ کے ہاتھوں مجبور ہو کر رحیم نے ایک تیز دھار چاقو اٹھایا اور اس مرغی کو پکڑ لیا جس نے اسے اتنی دولت دی تھی۔ اس نے بے رحمی سے اس مرغی کا پیٹ چیر ڈالا، یہ توقع کرتے ہوئے کہ اندر سنہری انڈوں کا خزانہ بھرا ہوگا۔ لیکن جب اس نے مرغی کا پیٹ کھولا تو وہ حیران اور پریشان رہ گیا۔ اندر ایک بھی سنہری انڈا نہیں تھا۔ وہاں صرف عام مرغیوں کی طرح ہی اعضاء تھے۔
رحیم کو اپنی اس احمقانہ حرکت پر کتنا افسوس ہوا ہوگا؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جب لالچ کا انجام سامنے آتا ہے تو انسان کس قدر بے بس محسوس کرتا ہے؟
رحیم نے اپنی لالچ میں نہ صرف سنہری انڈے دینے والی مرغی کو کھو دیا بلکہ اپنی خوشحالی کا ذریعہ بھی ختم کر دیا۔ اب وہ دوبارہ غریب ہو گیا اور اسے اپنی غلطی پر پچھتانے کے سوا کچھ نہیں بچا تھا۔ اس نے سمجھ لیا کہ لالچ ایک ایسی بری بلا ہے جو انسان کو موجودہ نعمتوں کی قدر نہیں کرنے دیتی اور اسے سب کچھ کھو دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اس کہانی سے آپ نے کیا سبق سیکھا؟ کیا آپ کے خیال میں قناعت اور صبر کی زندگی گزارنا بہتر ہے یا لالچ کے پیچھے بھاگنا؟
یہ کہانی ہمیں یہ اہم سبق دیتی ہے کہ:
ہمیں ہمیشہ اپنی موجودہ حالت پر شکر گزار رہنا چاہیے اور کبھی بھی زیادہ کی لالچ میں اپنی موجودہ نعمتوں کو نہیں کھونا چاہیے۔ لالچ کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔
Good lesson 👍👍👍👍
ReplyDelete