"محنتی چیونٹی اور سست ٹڈا"
گرمیوں کے دن تھے۔ سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا اور فضا میں ایک عجیب سی مستی چھائی ہوئی تھی۔ ایک کھیت میں، ایک چیونٹی بڑے جوش و خروش سے ادھر ادھر گھوم رہی تھی۔ وہ دن بھر محنت کرتی، اپنے سے کئی گنا بڑا دانہ اٹھاتی اور اسے اپنے بل میں لے جاتی۔ اس کی چھوٹی سی کمر مسلسل جھکی رہتی اور وہ ایک لمحے کے لیے بھی آرام نہیں کرتی تھی۔
![]() |
"محنتی چیونٹی" |
اسی کھیت میں ایک ٹڈا بھی رہتا تھا۔ وہ بڑا ہی عیش پسند اور سست تھا۔ سارا دن دھوپ میں لیٹا رہتا، گاتا بجاتا اور جب بھوک لگتی تو آس پاس کے پودوں سے کچھ پتے کھا لیتا۔ اسے مستقبل کی کوئی فکر نہیں تھی۔ جب وہ چیونٹی کو اتنی محنت کرتے دیکھتا تو ہنستا اور کہتا،
"ارے او چھوٹی سی چیونٹی! کیوں اتنی مشقت کرتی ہو؟
یہ زندگی تو مزے کرنے کے لیے ہے۔ آؤ، میرے ساتھ کچھ دیر دھوپ میں بیٹھو، گانا سنو اور زندگی کے لطف اٹھاؤ۔"
چیونٹی اس کی بات سن کر افسوس سے سر ہلاتی اور کہتی، "بھائی ٹڈے، ابھی تو گرمیاں ہیں اور خوراک کی فراوانی ہے۔ لیکن جب سردیاں آئیں گی تو کھانے کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس وقت تم کیا کرو گے؟ میں تو ابھی سے سردیوں کے لیے خوراک جمع کر رہی ہوں۔"
ٹڈا اس کی بات سن کر زور سے ہنستا اور کہتا، "سردیاں! ابھی تو بہت دور ہیں۔ جب آئیں گی تب دیکھی جائے گی۔ تم خواہ مخواہ پریشان ہوتی ہو۔"
گرمیوں کے بعد خزاں کا سماں آیا۔ درختوں کے پتے زرد ہو کر گرنے لگے اور موسم میں ٹھنڈک بڑھ گئی۔ چیونٹی نے اپنی انتھک محنت جاری رکھی اور اپنے بل کو اناج سے لبریز کر لیا۔
پھر سردیاں آ گئیں! ہر طرف برف کی سفید چادر بچھ گئی۔ ٹڈے کو اب اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ بھوک سے بے حال تھا۔ کھیت میں کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ نہ کوئی پتہ نظر آ رہا تھا اور نہ ہی کوئی تنکا۔ وہ سردی سے ٹھٹھر رہا تھا اور کمزوری سے ہل بھی نہیں پا رہا تھا۔
![]() |
"بھوک سے بےحال ٹڈا" |
آخر کار، وہ ہمت کر کے چیونٹی کے بل کے پاس گیا۔ اس نے چیونٹی کو آواز دی،
"اے میری محنتی بہن! کیا تم میری مدد کر سکتی ہو؟ میں بھوک سے مر رہا ہوں۔ کیا تمہارے پاس مجھے کھانے کے لیے کچھ دانہ ہو گا؟"
چیونٹی نے بل کا دروازہ تھوڑا سا کھولا اور ٹڈے کو افسردگی سے دیکھا۔ پھر بولی، "بھائی ٹڈے! جب گرمیاں تھیں تو تم کیا کر رہے تھے؟ تم تو سارا دن گاتے بجاتے اور مزے کرتے تھے۔ میں نے تمہیں اس وقت کہا تھا کہ سردیوں کے لیے کچھ جمع کر لو، لیکن تم نے میری بات نہیں سنی۔"
ٹڈے نے شرمندگی سے سر جھکا لیا اور کہا، "ہاں بہن، یہ میری غلطی تھی۔ میں نے تمہاری بات نہیں مانی اور وقت ضائع کیا۔
کیا اب بھی کوئی امید ہے؟"
چیونٹی کچھ دیر خاموش رہی، پھر بولی، "میں نے اپنی محنت سے جو کچھ جمع کیا ہے، وہ میرے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہے۔ لیکن میں تمہیں خالی ہاتھ بھی نہیں بھیج سکتی۔ اندر آ جاؤ، میں تمہیں کچھ دانے دے دوں گی۔ لیکن یاد رکھنا، آئندہ کبھی بھی وقت ضائع مت کرنا اور مستقبل کے لیے ہمیشہ تیار رہنا۔"
ٹڈے نے چیونٹی کا احسان مانا اور اس کے گھر میں داخل ہو گیا۔ اس نے چیونٹی کی مہربانی سے کچھ اناج کھایا اور اپنی زندگی کو بچایا۔ اس تجربے کے بعد ٹڈے پر محنت کی اہمیت واضح ہو گئی۔
اور وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی بھی سستی نہیں کرے گا۔
مركزی خیال:
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمیں حال میں مست رہنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لیے بھی تیاری کرنی چاہیے۔ محنت کرنے والا ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے جبکہ سستی اور لاپرواہی کرنے والا مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ یہ کہانی ہمیں وقت کی قدر کرنے اور اسے صحیح استعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔