"استاد کا ادب"
ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک سرکاری اسکول تھا۔ اس اسکول میں مختلف مزاج اور عادات کے بچے پڑھتے تھے۔ کچھ بچے بہت فرمانبردار اور مہذب تھے، جو اپنے اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے اور ان کی ہر بات غور سے سنتے تھے۔ وہ نہ صرف کلاس میں بلکہ اسکول کے باہر بھی اپنے اساتذہ کو عزت دیتے تھے۔
دوسری طرف، کچھ بچے ایسے بھی تھے جو قدرے لاپرواہ اور بے پروا تھے۔ وہ اکثر کلاس میں شور مچاتے، اساتذہ کی باتوں پر دھیان نہیں دیتے اور بعض اوقات تو ان کی باتوں کا مذاق بھی اڑاتے۔ ان کا رویہ اساتذہ کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا تھا، جو بڑی محنت اور لگن سے انہیں تعلیم دیتے تھے۔
اسی اسکول میں ایک تجربہ کار اور دانا استاد تھے، جن کا نام ماسٹر رشید تھا۔ وہ اپنی علمیت، تجربے اور شفقت کی وجہ سے پورے علاقے میں جانے جاتے تھے۔ ماسٹر رشید بچوں کی نفسیات کو بخوبی سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ انہیں کس طرح سکھانا اور تربیت دینا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے شاگردوں کو علم کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق اور ادب کی بھی تعلیم دی۔
ایک دن ماسٹر رشید نے اپنی کلاس میں ایک سبق پڑھایا جس کا عنوان تھا "استاد کا مقام اور ادب"۔ انہوں نے بچوں کو بتایا کہ استاد ایک روحانی باپ کی طرح ہوتا ہے جو اپنے شاگردوں کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر علم کی روشنی میں لاتا ہے۔ استاد اپنی زندگی علم کی شمع روشن کرنے میں گزار دیتا ہے تاکہ اس کے شاگرد زندگی میں کامیاب اور باکردار شہری بن سکیں۔
ماسٹر رشید نے مختلف مثالوں اور کہانیوں کے ذریعے بچوں کو سمجھایا کہ کس طرح ماضی میں بڑے بڑے علما اور دانشور اپنے اساتذہ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ادب اور احترام کے بغیر علم حاصل کرنا بے سود ہے۔ جو طالب علم اپنے استاد کا ادب نہیں کرتا، وہ کبھی بھی علم کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی زندگی میں کوئی بڑا مقام حاصل کر سکتا ہے۔
کچھ لاپرواہ بچوں نے اس دن بھی ماسٹر رشید کی باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ وہ آپس میں سرگوشیاں کرتے رہے اور ایک دوسرے کو ٹہوکے مارتے رہے۔ ماسٹر رشید نے ان کی اس بے اعتنائی کو محسوس کیا لیکن انہوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ وہ جانتے تھے کہ نصیحت کا اثر وقت کے ساتھ ساتھ ضرور ہوتا ہے۔
وقت گزرتا گیا اور بچوں نے اپنی پڑھائی جاری رکھی۔ سالانہ امتحانات قریب آ گئے۔ جو بچے محنت سے پڑھتے تھے اور اپنے اساتذہ کا ادب کرتے تھے، وہ امتحان کی تیاری میں پوری طرح جُت گئے تھے۔ انہیں اپنے اساتذہ کی رہنمائی پر پورا بھروسہ تھا۔
دوسری طرف، جو بچے لاپرواہ تھے اور اساتذہ کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے، وہ اب پریشان تھے۔ انہوں نے سارا سال اپنی پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی تھی اور اب انہیں امتحان میں ناکامی کا ڈر ستانے لگا تھا۔
امتحانات ہوئے اور نتائج کا اعلان ہوا۔ جو بچے اپنے اساتذہ کا ادب کرتے تھے اور محنت سے پڑھتے تھے، انہوں نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ ان کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔ اس کے برعکس، لاپرواہ بچے بری طرح ناکام ہوئے۔ ان کے والدین بھی ان کی اس حالت پر بہت افسردہ تھے۔
نتیجہ آنے کے بعد ماسٹر رشید نے تمام بچوں کو جمع کیا۔ انہوں نے کامیاب بچوں کو مبارکباد دی اور ناکام بچوں کو پیار سے سمجھایا۔ انہوں نے ان سے کہا کہ ناکامی کوئی حتمی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سبق ہے جو ہمیں اپنی غلطیوں کو سدھارنے اور مستقبل میں محنت کرنے کا موقع دیتا ہے۔
ماسٹر رشید نے خاص طور پر ان لاپرواہ بچوں سے مخاطب ہو کر کہا، "دیکھو بچو، میں نے تمہیں پہلے بھی بتایا تھا کہ علم کے ساتھ ساتھ ادب اور احترام بھی بہت ضروری ہے۔ تم نے اپنے اساتذہ کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس کا نتیجہ تم نے دیکھ لیا۔ اگر تم نے اپنے اساتذہ کا احترام کیا ہوتا اور ان کی رہنمائی میں محنت کی ہوتی تو آج تم بھی کامیاب بچوں میں شامل ہوتے۔"
ماسٹر رشید کی ان باتوں کا ان لاپرواہ بچوں پر گہرا اثر ہوا۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے شرمندگی محسوس کی۔ ان میں سے ایک بچے نے آگے بڑھ کر ماسٹر رشید کے قدم چھو لیے اور کہا، "سر، ہمیں معاف کر دیجیے۔ ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ آئندہ ہم کبھی بھی اپنے اساتذہ کی بے ادبی نہیں کریں گے اور پوری محنت اور لگن سے پڑھیں گے۔"
باقی بچوں نے بھی اس کی تائید کی اور ماسٹر رشید سے وعدہ کیا کہ وہ اب سے ایک اچھے طالب علم بن کر دکھائیں گے۔ ماسٹر رشید ان کی ندامت دیکھ کر خوش ہوئے اور انہیں معاف کر دیا۔ انہوں نے بچوں کو حوصلہ دیا اور کہا کہ ابھی بھی وقت ہے کہ وہ محنت کر کے اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔
اس دن کے بعد ان بچوں کے رویے میں نمایاں تبدیلی آئی۔ وہ اب کلاس میں خاموشی سے بیٹھتے، اساتذہ کی ہر بات توجہ سے سنتے اور ان سے ادب و احترام سے پیش آتے۔ انہوں نے اپنی پڑھائی میں بھی خوب محنت شروع کر دی اور جلد ہی ان کی کارکردگی میں بہتری نظر آنے لگی۔
کچھ سال بعد، جب یہ بچے اپنی تعلیم مکمل کر کے زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیاب ہوئے تو انہوں نے کبھی بھی اپنے اساتذہ، خاص طور پر ماسٹر رشید کو نہیں بھلایا۔ وہ اکثر اسکول آتے اور اپنے اساتذہ سے مل کر ان کا شکریہ ادا کرتے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ استاد کا ادب اور احترام ہی ان کی کامیابی کی بنیاد بنا
یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ طالب علم کے لیے اپنے استاد کا ادب و احترام کرنا کس قدر ضروری ہے۔ استاد وہ شمع ہے جو جل کر دوسروں کو روشنی دیتا ہے۔ استاد کی قدر کرنے والا اور اس کی رہنمائی پر عمل کرنے والا طالب علم ہی زندگی میں کامیابی کی منازل طے کرتا ہے۔ جو بچے اپنے اساتذہ کی بے قدری کرتے ہیں، وہ علم کی دولت سے محروم رہ جاتے ہیں اور انہیں زندگی میں پچھتاوا ہوتا ہے۔ اس لیے ہر طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنے استاد کا دل سے احترام کرے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔
مرکزی خیال:
استاد کی قدر و منزلت پہچاننا اور ان کا احترام کرنا طالب علم کی کامیابی اور بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔