خاموش چیخ

Alham Sania
0


 "خاموش چیخ"

رات گہری اور ساکت تھی۔ لاہور کی پرانی گلیوں میں سناٹا اترا ہوا تھا، بس کبھی کبھار کسی دور سے کسی کتے کے بھونکنے کی مدھم آواز اس سکوت کو توڑتی تھی۔ حویلی نمبر 13، جو اپنی خستہ حال دیواروں اور بند دریچوں کے ساتھ ایک بھولی بسری کہانی کی مانند کھڑی تھی، اس رات اور بھی پراسرار لگ رہی تھی۔ مقامی لوگ اس حویلی کے قریب سے گزرنے میں بھی احتیاط برتتے تھے، سرگوشیوں میں اس کے ماضی کے المناک واقعات اور اس میں بسنے والی کسی ان دیکھی چیز کی کہانیاں بیان کرتے تھے۔

خاموش چیخ

اس حویلی میں ایک نوجوان جوڑا، علی اور سارہ، چند ماہ قبل منتقل ہوا تھا۔ وہ شہر کی تیز رفتار زندگی سے دور، ایک پرسکون گوشہ تلاش کر رہے تھے

"حویلی کی قدیم دلآویزی نے ان کے دل میں ایک رومانوی کیفیت پیدا کر دی تھی، اور انہوں نے وہاں کے باشندوں کی باتوں کو محض پرانی عمارت سے وابستہ خیالی قصے تصور کیا۔

شروع میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ دن روشنی سے بھرے ہوتے اور راتیں خاموش نیندوں سے۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، سارہ کو کچھ عجیب محسوس ہونے لگا۔ رات کی تاریکی میں اسے اکثر دھیمی، بے معنی سرگوشیاں سنائی دیتیں، جو اتنی مدھم ہوتیں کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتی تھی کہ یہ محض اس کا وہم ہے یا واقعی کوئی آواز ہے۔ علی اس کی باتوں کو تھکن یا نئے ماحول کی وجہ سے ہونے والی پریشانی سمجھ کر ٹال دیتا تھا۔

ایک رات، سارہ کی نیند ایک سرد اور ناگوار احساس کے تحت کھلی۔ کمرے میں گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا، لیکن اس اندھیرے میں اسے ایک مبہم سی حرکت محسوس ہوئی۔ ایسا لگا جیسے کوئی سایہ کمرے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رینگ رہا ہو۔ اس نے گھبرا کر علی کو جگانا چاہا، لیکن اس کی آواز حلق میں ہی دم توڑ گئی۔ ایک انجانا خوف اس کے وجود کو مفلوج کر رہا تھا۔ جب اس نے اپنی نظریں اس مبہم سائے پر مرکوز کیں،

"پھر وہ رفتہ رفتہ نگاہوں سے دور ہوتا چلا گیا۔ جب علی نے اپنی پلکیں کھولیں تو سارہ کا چہرہ پسینے سے بھیگا ہوا تھا اور اس کی آنکھوں میں خوف نمایاں تھا"۔

خاموش چیخ

اس رات کے بعد سے، عجیب واقعات میں اضافہ ہوتا گیا۔ کبھی کسی کمرے سے فرنیچر سرکنے کی دھیمی آوازیں آتیں، کبھی بند دروازے خود بخود کھل جاتے، اور کبھی رات کے سکوت میں کسی بچے کے رونے کی دبی دبی آواز سنائی دیتی۔ سارہ کا خوف بڑھتا جا رہا تھا، اور اب علی بھی ان واقعات کو محض وہم قرار دینے سے قاصر تھا۔ حویلی کی پرانی دیواروں کے اندر ایک خاموش، لیکن طاقتور چیخ گونج رہی تھی، جو ان کے ذہنوں پر ایک انجانا دباؤ ڈال رہی تھی۔

ا نہوں نے مقامی لوگوں سے حویلی کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی تو انہیں ایک المناک کہانی معلوم ہوئی۔ کئی سال پہلے، اس حویلی میں ایک خاندان رہتا تھا جس کا ایک چھوٹا بچہ پراسرار طور پر غائب ہو گیا تھا۔ بچے کی ماں نے اسے بہت تلاش کیا، لیکن وہ کبھی نہیں ملا۔ غم اور مایوسی نے اسے اندر ہی اندر کھا لیا اور وہ بالآخر اسی حویلی میں مر گئی۔ لوگوں کا ماننا تھا کہ اس کی روح آج بھی اپنے کھوئے ہوئے بچے کی تلاش میں بھٹکتی ہے، اور اس کی خاموش چیخ حویلی کی فضا میں رچی بسی ہے۔

علی اور سارہ پر اب یہ حقیقت آشکار ہو چکی تھی کہ وہ ایک ایسی جگہ پر رہ رہے ہیں جہاں ماضی کا درد اور ادھوری خواہشیں آج بھی موجود ہیں۔ سارہ کو اس ماں کے درد کا شدت سے احساس ہو رہا تھا۔ ایک ماں ہونے کے ناطے وہ اس کے غم کو بخوبی سمجھ سکتی تھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس بھٹکتی روح کو سکون دلانے کی کوشش کرے گی۔

انہوں نے حویلی کے ہر کونے کو غور سے دیکھا، اس امید پر کہ انہیں بچے کے بارے میں کوئی نشانی مل جائے۔ پرانے سامان اور گرد آلود یادگاروں کے درمیان، انہیں ایک صندوق ملا۔ صندوق کھولا تو اس میں ایک پرانی گڑیا اور ایک ادھوری کہانیوں کی کتاب ملی۔ کتاب کے ایک صفحے پر ایک بچے کا نام لکھا تھا: "عمران"۔ سارہ کا دل ایک دھچکے سے رک گیا۔


خاموش چیخ

اسی رات، سارہ نے ایک خواب دیکھا۔ خواب میں اس نے ایک غمگین عورت کو دیکھا جو ایک چھوٹے بچے کا ہاتھ تھامے کھڑی تھی۔ عورت کی آنکھوں میں بے پناہ درد تھا، لیکن اس کے چہرے پر ایک التجا بھی تھی۔ عورت نے سارہ کی طرف دیکھا اور ایک بے آواز لفظ ادا کیا: "انصاف"۔

سارہ نے علی کو اپنا خواب بتایا اور انہیں احساس ہوا کہ انہیں عمران کی گمشدگی کے بارے میں مزید جاننے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے پرانے اخبارات اور مقامی ریکارڈز کھنگالے اور بالآخر انہیں عمران کی گمشدگی کی تفصیلات مل گئیں۔ یہ ایک افسوسناک حادثہ تھا؛ عمران حویلی کے پچھلے حصے میں بنے ایک پرانے کنویں میں گر گیا تھا اور کسی کو اس کا علم نہیں ہو سکا تھا۔ بچے کی ماں اس صدمے کو برداشت نہیں کر سکی اور آہستہ آہستہ موت کے منہ میں چلی گئی۔

علی اور سارہ نے فیصلہ کیا کہ وہ عمران کی باقیات کو تلاش کر کے اسے مناسب تدفین دیں گے، تاکہ اس کی ماں کی روح کو سکون مل سکے۔ انہوں نے مقامی لوگوں کی مدد سے حویلی کے پچھلے حصے میں موجود بند کنویں کو کھدوایا۔ کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد، انہیں انسانی ڈھانچہ ملا، جو یقیناً عمران کا تھا۔

انہوں نے مذہبی رسومات کے مطابق عمران کی تدفین کی اور اس کی روح کی مغفرت کے لیے دعا کی۔ اس کے بعد سے، حویلی میں وہ خوفناک خاموشی ٹوٹ گئی۔ سرگوشیاں بند ہو گئیں، دروازے پرسکون ہو گئے اور رونے کی آوازیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں۔ سارہ کو یقین تھا کہ اب اس ماں کی روح کو سکون مل گیا ہے، جس کی خاموش چیخ برسوں سے اس حویلی کی فضا میں گونج رہی تھی۔

علی اور سارہ نے حویلی چھوڑنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ اب وہ اس جگہ کو ایک مقدس امانت سمجھتے تھے۔ انہوں نے حویلی کی مرمت کروائی اور اسے ایک پرسکون گھر میں تبدیل کر دیا۔ وہ اکثر عمران کی قبر پر جاتے اور اس کی روح کے لیے دعا کرتے۔ انہوں نے سیکھا تھا کہ ماضی کے درد کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، لیکن محبت اور ہمدردی سے اسے سکون بخشا جا سکتا ہے۔ حویلی نمبر 13، جو کبھی خوف اور پراسراریت کا مرکز تھی، اب ایک ایسی جگہ بن گئی تھی جہاں خاموشی میں بھی ایک پرسکون کہانی سنائی دیتی تھی 

– ایک ایسی ماں کی کہانی جس کی خاموش چیخ آخر کار سنی گئی۔

مرکزی خیال:

اس کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ماضی کے المناک واقعات اور ادھوری خواہشیں کسی جگہ پر ایک گہرا اور خاموش اثر چھوڑ سکتی ہیں، جو وہاں رہنے والوں کے لیے خوف اور بےچینی کا سبب بنتی ہیں۔ تاہم، ہمدردی، محبت اور انصاف کے ذریعے ان بھٹکتی ہوئی روحوں کو سکون بخشا جا سکتا ہے اور اس طرح اس جگہ کی منفی توانائی کو مثبت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔



Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !