رنگ برنگے پرندے

Alham Sania
0

 

"رنگ برنگے پرندے"

ایک دور افتادہ وادی میں، جہاں آسمان ہمیشہ نیلا اور ندیاں کرسٹل کی طرح صاف تھیں، رنگ برنگے پرندوں کی ایک جماعت رہتی تھی۔ ان کے پر ایسے تھے جیسے کسی مصور نے اپنی تمام تر تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے بنائے ہوں۔ کچھ کے پروں پر سرخ اور سنہری دھاریاں تھیں، کچھ زمرد کی طرح سبز تھے، اور کچھ ایسے تھے جن پر قوس قزح کے تمام رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ ان کی چہچہاہٹ وادی میں ایک سریلی موسیقی بکھیرتی تھی، جو سننے والوں کے دلوں کو سکون بخشتی تھی۔

رنگ برنگے پرندے

ان پرندوں میں ایک چھوٹا سا پرندہ تھا، جس کا نام زرقا تھا۔ زرقا کے پر اگرچہ اتنے شاندار نہیں تھے جتنے دوسروں کے، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی اور اس کا دل تجسس سے بھرا ہوا تھا۔ وہ اکثر وادی کے ان حصوں میں اڑان بھرتا جہاں دوسرے پرندے نہیں جاتے۔ اسے نئی چیزیں دریافت کرنے اور دنیا کو اپنی نظروں سے دیکھنے کا شوق تھا۔

ایک دن، زرقا اڑتے اڑتے ایک ایسی جگہ پر پہنچ گیا جہاں پہلے کبھی کوئی پرندہ نہیں گیا تھا۔ وہاں اس نے ایک پرانا، بوسیدہ درخت دیکھا جس کی شاخیں زمین کی طرف جھکی ہوئی تھیں۔ اس درخت کے تنے پر ایک چھوٹا سا سوراخ تھا، اور زرقا کو اس میں سے دھیمی دھیمی آوازیں سنائی دیں۔ تجسس کے مارے وہ سوراخ کے قریب گیا اور جھانک کر دیکھا۔

رنگ برنگے پرندے

اندر ایک بوڑھی چڑیا بیٹھی تھی، جس کے پروں کا رنگ ماند پڑ چکا تھا اور وہ بہت کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ زرقا نے آہستہ سے پوچھا، "آپ کون ہیں اور یہاں کیا کر رہی ہیں؟"

بوڑھی چڑیا نے کمزور آواز میں جواب دیا، "میں اس وادی کی سب سے پرانی پرندہ ہوں۔ ایک زمانے میں میرے پر بھی بہت رنگین اور چمکدار تھے، اور میری آواز میں بھی مٹھاس تھی۔ لیکن اب میں بوڑھی ہو چکی ہوں اور اڑنے کے قابل بھی نہیں رہی۔"

زرقا کو بوڑھی چڑیا پر بہت ترس آیا۔ اس نے کہا، "آپ اکیلی کیوں ہیں؟ کیا آپ کا کوئی نہیں ہے؟"

بوڑھی چڑیا نے ایک لمبی آہ بھری اور بولی، "میرے سب ساتھی بہت پہلے اڑ کر دور چلے گئے تھے۔

 میں اس قدر ناتواں ہو چکی تھی کہ ان کے ہمراہ سفر کرنے کی سکت نہ رہی۔ اسی وجہ سے، تب سے میں یہاں تنہا زندگی گزار رہی ہوں۔

زرقا نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا، "اب آپ اکیلی نہیں رہیں گی۔ میں روزانہ آپ کے لیے کھانا لاؤں گا اور آپ کو کہانیاں سناؤں گا۔"

بوڑھی چڑیا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے زرقا کو پیار سے دیکھا اور کہا، "تم بہت مہربان ہو۔"

اس دن سے زرقا نے اپنا وعدہ نبھایا۔ وہ ہر روز صبح سویرے اٹھتا، وادی میں اڑ کر بہترین پھل اور بیج تلاش کرتا، اور پھر بوڑھی چڑیا کے پاس لے جاتا۔ وہ اسے وادی کی خوبصورتی کے بارے میں بتاتا، نئے پرندوں کے بارے میں بتاتا، اور وہ سب کچھ سناتا جو اس نے اپنی روزمرہ کی اڑانوں میں دیکھا تھا

رنگ برنگے پرندے

وقت گزرتا گیا، اور زرقا اور بوڑھی چڑیا کے درمیان ایک گہرا رشتہ بن گیا۔ زرقا کی دیکھ بھال اور محبت سے بوڑھی چڑیا کی صحت میں بھی کچھ بہتری آئی۔ اس کے پروں میں ہلکی سی چمک واپس آنے لگی اور اس کی آواز میں بھی پہلے سے زیادہ طاقت محسوس ہونے لگی۔

ایک دن، جب زرقا بوڑھی چڑیا کے لیے کھانا لے کر آیا تو اس نے دیکھا کہ درخت کے اردگرد بہت سے دوسرے رنگ برنگے پرندے جمع ہیں۔ وہ سب زرقا اور بوڑھی چڑیا کی کہانی سن چکے تھے اور اب وہ خود بھی بوڑھی چڑیا کی مدد کرنا چاہتے تھے۔

ان پرندوں نے مل کر بوڑھی چڑیا کے لیے ایک نیا گھونسلہ بنایا، جو پرانے درخت کی سب سے محفوظ اور دھوپ والی شاخ پر تھا۔ وہ باری باری اس کے لیے کھانا لاتے اور اسے اپنی خوبصورت آوازوں سے محظوظ کرتے۔

بوڑھی چڑیا بہت خوش تھی کہ آخر کار اسے اکیلا نہیں رہنا پڑا۔ اس نے زرقا اور دوسرے پرندوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی محبت اور دیکھ بھال نے اسے ایک نئی زندگی دی ہے۔

اس دن سے، وادی کے تمام رنگ برنگے پرندوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا سیکھ لیا۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ ظاہری رنگوں سے زیادہ اہم دل کا رنگ ہوتا ہے، اور سچی خوبصورتی ایک دوسرے کی مدد کرنے اور محبت بانٹنے میں ہے۔ زرقا، جس کے پر اتنے شاندار نہیں تھے، اپنی مہربانی اور ہمدردی کی وجہ سے سب کا پیارا بن گیا، اور اس کی کہانی وادی کے پرندوں میں ہمیشہ یاد رکھی گئی۔

مرکزی خیال: 

یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ظاہری شکل و صورت سے زیادہ اہم دل کی خوبصورتی ہوتی ہے، اور چھوٹی سی مہربانی بھی کسی کے لیے تبدیلی لا سکتی ہیں ۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !