"ٹوٹا ہوا آئینہ"
رابعہ ایک پرانی حویلی میں اپنی دادی کے ساتھ رہتی تھی۔ حویلی کے ایک تاریک کمرے میں ایک بڑا سا، قدیم آئینہ لگا ہوا تھا، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کئی نسلوں سے ان کے خاندان میں چلا آ رہا ہے۔ رابعہ نے بچپن سے اس آئینے کو دیکھا تھا، لیکن کبھی اس پر غور نہیں کیا تھا۔ وہ تو اپنی جوانی کی رنگینیوں میں کھوئی رہتی تھی، دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا، کالج کی مصروفیات، یہی اس کی دنیا تھی۔
ایک دن، صفائی کے دوران رابعہ نے دیکھا کہ آئینے کے ایک کونے میں ایک باریک سی دراڑ پڑی ہوئی ہے۔ اس نے اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، وہ دراڑ بڑھتی گئی۔ ایک صبح، جب رابعہ تیار ہو رہی تھی، اس نے دیکھا کہ آئینے میں ایک بڑا سا شگاف پڑ گیا ہے، جو اس کے چہرے کو دو حصوں میں تقسیم کر رہا تھا۔
اس ٹوٹے ہوئے آئینے کو دیکھ کر رابعہ کو عجیب سا احساس ہوا۔ ایسا لگا جیسے اس کی اپنی ذات بھی کہیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہو۔ وہ غور سے اپنے عکس کو دیکھنے لگی۔ ایک طرف اس کا چہرہ بالکل واضح تھا، لیکن دوسری طرف وہ دھندلا اور مسخ شدہ نظر آ رہا تھا۔
اس دن سے رابعہ کا رویہ بدل گیا۔ وہ ہر وقت اس ٹوٹے ہوئے آئینے کے سامنے کھڑی رہتی اور اپنے عکس کو گھورتی رہتی۔ اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس آئینے کے دو حصے اس کی اپنی شخصیت کے دو مختلف پہلو ہوں۔ ایک وہ جو دنیا کو نظر آتا تھا، خوش باش، بے پرواہ، اور دوسرا وہ جو اس کے اندر کہیں چھپا ہوا تھا، اداس، تنہا اور کسی گہرے درد کا شکار۔
رابعہ نے اپنی دادی سے اس آئینے کے بارے میں پوچھا۔ دادی نے بتایا کہ یہ آئینہ ان کے خاندان کی کئی نسلوں سے ان کے پاس ہے اور اس کے ساتھ کئی کہانیاں جڑی ہوئی ہیں۔ کچھ لوگ اسے منحوس سمجھتے تھے، لیکن دادی کا کہنا تھا کہ یہ آئینہ دراصل وقت کا عینی شاہد ہے، جس نے خوشی اور غم، دونوں طرح کے لمحات دیکھے ہیں۔
دادی نے رابعہ کو ایک پرانی کہانی سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک زمانے میں اس حویلی میں ایک نوجوان جوڑا رہتا تھا۔ وہ ایک دوسرے سے بے حد محبت کرتے تھے، لیکن ایک دن ایک حادثے میں نوجوان کی موت ہو گئی۔ اس کی بیوی اس صدمے کو برداشت نہ کر سکی اور ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ اس کی روح آج بھی اس حویلی میں بھٹکتی ہے اور کبھی کبھی اس آئینے میں اس کا اداس چہرہ نظر آتا ہے۔
رابعہ نے دادی کی بات سن کر تجسس محسوس کیا۔ کیا واقعی اس آئینے میں کوئی راز چھپا ہوا ہے؟ کیا اس ٹوٹے ہوئے عکس کا اس کی اپنی زندگی سے بھی کوئی تعلق ہے؟
ان دنوں رابعہ اپنی زندگی میں بھی کچھ الجھنوں کا شکار تھی۔ اس کے ایک قریبی دوست سے کچھ ناراضگی چل رہی تھی اور وہ اندر ہی اندر گھٹ رہی تھی۔ وہ کسی سے اپنے دل کی بات نہیں کر پا رہی تھی اور تنہائی کا شکار ہوتی جا رہی تھی۔
ایک رات، رابعہ دیر تک اس ٹوٹے ہوئے آئینے کے سامنے کھڑی رہی۔ اس نے اپنے دونوں عکسوں کو غور سے دیکھا۔ ایک طرف وہ مسکراتا ہوا چہرہ تھا جو وہ دنیا کو دکھاتی تھی، اور دوسری طرف وہ اداس اور پریشان چہرہ تھا جو اس کے اندر چھپا ہوا تھا۔
اچانک، رابعہ کو یوں محسوس ہوا جیسے آئینے کا دھندلا حصہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ اسے لگا جیسے کوئی سرگوشی اس کے کانوں میں آ رہی ہو۔ وہ ڈر گئی، لیکن پھر بھی اس نے اپنی توجہ مرکوز رکھی۔
اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ اپنے اندر کی آواز سن رہی ہو۔ وہ آواز جو اسے اپنی تکلیفوں کا سامنا کرنے، اپنے دوست سے صلح کرنے اور اپنی تنہائی کو ختم کرنے کی تلقین کر رہی تھی۔
رابعہ نے ایک گہرا سانس لیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اب مزید اس ٹوٹے ہوئے عکس سے نہیں ڈرے گی، بلکہ اس سے سیکھے گی۔ اس نے سمجھ لیا تھا کہ ہر انسان کے اندر روشنی اور تاریکی دونوں موجود ہوتی ہیں، اور اہم یہ ہے کہ ان دونوں کو قبول کیا جائے اور ان کے ساتھ صلح کی جائے۔
اگلے دن، رابعہ نے اپنے دوست کو فون کیا اور اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگی۔ اس کے دوست نے بھی گرمجوشی سے اسے معاف کر دیا۔ رابعہ کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے دل سے ایک بڑا بوجھ اتر گیا ہو۔
اس دن کے بعد رابعہ نے اس ٹوٹے ہوئے آئینے کو ایک مختلف نظر سے دیکھنا شروع کر دیا۔ اب وہ اسے اپنی کمزوریوں اور خامیوں کی یاد دہانی کرواتا تھا۔ وہ جان گئی تھی کہ کوئی بھی کامل نہیں ہوتا اور زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ اہم یہ ہے کہ ان حالات کا سامنا کیسے کیا جائے۔
وقت گزرتا گیا اور رابعہ ایک مضبوط اور سمجھدار لڑکی بن گئی۔ اس نے اپنی زندگی کے ہر پہلو کو قبول کرنا سیکھ لیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے اندر بھی ایک ٹوٹا ہوا حصہ موجود ہے، لیکن اب وہ اس سے شرمندہ نہیں تھی، بلکہ اسے اپنی طاقت سمجھتی تھی۔
ایک دن، رابعہ کی دادی نے اسے ایک نیا، بڑا سا آئینہ تحفے میں دیا۔ رابعہ نے مسکرا کر وہ آئینہ لے لیا، لیکن اس نے پرانے، ٹوٹے ہوئے آئینے کو بھی وہیں رہنے دیا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ ٹوٹا ہوا آئینہ اسے ہمیشہ ایک اہم سبق یاد دلاتا رہے گا – یہ کہ زندگی کی خوبصورتی اس کی نامکملیت میں بھی پوشیدہ ہے۔
اس کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ:
ظاہری خوبصورتی یا کاملیت کے پیچھے اکثر پوشیدہ خامیاں اور ٹوٹ پھوٹ موجود ہوتی ہے، اور حقیقی طاقت ان خامیوں کو قبول کرنے اور ان کے ساتھ صلح کرنے میں ہے۔
ٹوٹا ہوا آئینہ محض ایک شے نہیں، بلکہ اس حقیقت کا عکاس ہے کہ ہر چیز تغیر پذیر ہے، حتیٰ کہ وہ چیزیں جو بظاہر لازوال اور بے عیب دکھائی دیتی ہیں۔ بالکل اسی طرح، ایک انسان بھی ظاہری طور پر مضبوط اور خوش نظر آنے کے باوجود اپنے اندرونی مسائل، غموں اور کمیوں سے مبرا نہیں ہوتا۔ یہ ٹوٹا ہوا عکس ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نامکمل ہونا انسانی فطرت کا حصہ ہے اور ظاہری خوبصورتی باطنی پیچیدگیوں کو چھپا سکتی ہے