اتفاقی ملاقات

Alham Sania
0

 

"اتفاقی ملاقات"

سردیوں کی ایک دھوپ بھری صبح تھی جب میں شہر کے ایک مصروف حصے میں واقع ایک پرانے کیفے میں داخل ہوا۔ اس کیفے کی دیواریں پرانی تصاویر اور کتابوں سے سجی تھیں، اور یہاں کی خوشبو میں کافی اور پرانی یادوں کا ایک عجیب سا امتزاج تھا۔ میں ایک کونے والی میز پر جا بیٹھا، جہاں سے باہر سڑک پر لوگوں کی آمد و رفت نظر آ رہی تھی۔

اتفاقی ملاقات

میں اپنے لیپ ٹاپ پر کام کرنے میں مصروف تھا جب میری نظر ایک ایسی شخصیت پر پڑی جو ابھی داخل ہوئی تھی۔ وہ ایک ادھیڑ عمر خاتون تھیں، جن کے چہرے پر وقت نے گہری لکیریں کھینچی تھیں، لیکن ان کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی۔ انہوں نے ایک لمبا، کشمیری شال اوڑھ رکھا تھا اور ان کے ہاتھ میں ایک پرانی، جلد والی کتاب تھی۔ وہ کچھ دیر کے لیے رُکیں، جیسے کسی کو تلاش کر رہی ہوں، اور پھر ایک خالی میز کی طرف بڑھ گئیں۔

میں نے اپنا کام جاری رکھا، لیکن کسی انجانی کشش کے تحت میری نظر بار بار ان کی طرف جا رہی تھی۔ ان کے انداز میں ایک وقار اور تنہائی کا عجیب سا امتزاج تھا۔ انہوں نے ویٹر کو اشارہ کیا اور ایک کپ چائے کا آرڈر دیا۔ جب ویٹر چلا گیا تو انہوں نے اپنی کتاب کھولی اور اس میں کھو گئیں۔

اتفاقی ملاقات

کچھ دیر بعد، ویٹر ان کی چائے لے کر آیا۔ انہوں نے شکریہ ادا کیا اور ایک گھونٹ بھرا۔ اسی لمحے، ان کے ہاتھ سے کتاب پھسل کر فرش پر گر گئی۔ میں نے بے اختیار ہو کر جھک کر کتاب اٹھا لی۔

"مجھے افسوس ہے،" میں نے کتاب واپس لیتے ہوئے

 کہا۔

انہوں نے میری طرف دیکھا، ان کی آنکھوں میں ہلکی سی حیرت تھی۔ "شکریہ، بیٹا،" انہوں نے نرمی سے کہا۔ ان کی آواز میں ایک خاص طرح کی مٹھاس تھی۔

"کوئی بات نہیں،" میں نے جواب دیا۔ "یہ تو بس اتفاق تھا۔"

انہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کتاب لے لی۔ "اتفاق بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں نا؟ کبھی کسی انجان سے ملا دیتے ہیں اور کبھی کسی بچھڑے ہوئے کو یاد دلا دیتے ہیں۔"

ان کی اس بات میں ایک گہرا فلسفہ چھپا ہوا تھا۔ میں ان کی طرف متوجہ ہو گیا۔ "آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ زندگی میں بہت سی چیزیں اتفاقاً ہی ہوتی ہیں۔"

"بالکل،" انہوں نے کہا۔ "میری زندگی میں بھی کئی اہم موڑ اتفاقاً ہی آئے ہیں۔ یہ کتاب بھی مجھے اتفاقاً ہی ملی تھی۔" انہوں نے اپنی گود میں رکھی کتاب پر ہاتھ پھیرا۔ "یہ میرے والد کی ڈائری ہے۔ برسوں پہلے کھو گئی تھی اور کل ہی مجھے ایک پرانے صندوق میں ملی۔"

ان کی آواز میں ایک درد چھپا ہوا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ شاید وہ اپنے والد کو یاد کر رہی ہیں۔ "یہ تو بہت قیمتی ہو گی آپ کے لیے،" میں نے کہا۔

"ہاں، بہت قیمتی،" انہوں نے آہ بھری۔ "اس میں ان کی زندگی کے کئی راز دفن ہیں۔ ان کی سوچیں، ان کے خواب، ان کی تکلیفیں۔"

ہم خاموش ہو گئے۔ کمرے میں صرف کپوں کی کھنک اور ہلکی موسیقی کی آوازیں آ رہی تھیں۔ پھر انہوں نے میری طرف دیکھا اور پوچھا، "اور آپ کیا کرتے ہیں، بیٹا؟"

میں نے انہیں اپنے کام کے بارے میں بتایا، اپنے شوق کے بارے میں، اور اپنی زندگی کے کچھ عام سے واقعات شیئر کیے۔ انہوں نے بڑی دلچسپی سے میری باتیں سنیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک شفقت تھی جیسے وہ مجھے برسوں سے جانتی ہوں۔

جب میں خاموش ہوا تو انہوں نے کہا، "زندگی ایک سفر ہے، بیٹا، اور اس سفر میں بہت سے لوگ ملتے ہیں۔ کچھ راستے میں بچھڑ جاتے ہیں اور کچھ ہمیشہ کے لیے ساتھ رہ جاتے ہیں۔ لیکن ہر ملاقات کا اپنا ایک مقصد ہوتا ہے۔"

ان کی باتوں نے مجھے گہرا اثر کیا۔ میں نے کبھی اس طرح سے نہیں سوچا تھا۔ ہر اتفاقی ملاقات کو ایک خاص مقصد کے تحت دیکھنا ایک نیا زاویہ تھا۔

ہم کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ انہوں نے مجھے اپنی زندگی کے کچھ قصے سنائے، اپنی جوانی کے دن، اپنی محبتیں، اور اپنی تکلیفیں۔ ان کی ہر بات میں ایک تجربہ کار انسان کی حکمت جھلک رہی تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں کسی بزرگ اور دانا شخص سے بات کر رہا ہوں۔

وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ جب سورج کی روشنی تیز ہونے لگی تو مجھے احساس ہوا کہ مجھے اب جانا چاہیے۔ میں نے اٹھتے ہوئے ان سے کہا، "آپ سے مل کر بہت اچھا لگا۔"

انہوں نے مسکرا کر کہا، "مجھے بھی، بیٹا۔ یہ بھی ایک اتفاق ہی تھا۔ کون جانتا تھا کہ ایک گری ہوئی کتاب دو انجان لوگوں کو اتنی دیر کے لیے ایک ساتھ بٹھا دے گی۔"

اتفاقی ملاقات

میں نے ان سے اجازت چاہی اور کیفے سے باہر نکل آیا۔ سڑک پر لوگوں کی وہی بھیڑ تھی، وہی شور و غل۔ لیکن میرے اندر کچھ بدل گیا تھا۔ اس اتفاقی ملاقات نے مجھے زندگی کے بارے میں ایک نیا سبق سکھایا تھا۔ ہر ملاقات، چاہے وہ کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو، اپنے اندر ایک خاص پیغام رکھتی ہے۔ ہمیں بس اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

میں نے پیچھے مڑ کر کیفے کی طرف دیکھا۔ وہ خاتون ابھی بھی اپنی میز پر بیٹھی تھیں، اپنی کتاب میں کھوئی ہوئیں۔ ان کے چہرے پر ایک سکون تھا جو مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ یہ ایک اتفاقی ملاقات تھی، لیکن اس نے میری سوچ اور میرے دن پر ایک گہرا اثر چھوڑا تھا۔ اور میں سوچتا رہا کہ زندگی کے کتنے ہی ایسے اتفاقات ہوتے ہیں جو ہماری زندگی کی سمت بدل دیتے ہیں۔

مرکزی خیال:

کہانی اس خیال پر زور دیتی ہے کہ ہمیں کھلے ذہن کے ساتھ زندگی کے ہر اتفاق کو قبول کرنا چاہیے، کیونکہ یہ اتفاقات اکثر ہمیں نئے نقطہ نظر، قیمتی سبق اور انسانی رابطوں کی اہمیت سے روشناس کراتے ہیں۔

 



Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !