کھوئی ہوئی چابی

Alham Sania
1

 

"کھوئی ہوئی چابی"

بوڑھی بیوہ، مریم بی بی، اپنے چھوٹے سے گھر کے صحن میں پریشان قدموں سے ٹہل رہی تھیں۔ ان کی جھکی ہوئی کمر اور چاندی جیسے بال ان کی عمر رسیدہ ہونے کی گواہی دے رہے تھے، لیکن ان کی آنکھوں میں اب بھی ایک چمک تھی جو زندگی کی محبت کو ظاہر کرتی تھی۔ آج وہ اس چمک سے محروم تھیں، ان کی پیشانی پر گہری شکنیں پڑی ہوئی تھیں اور ان کی نظریں ہر اس جگہ پر مرکوز تھیں جہاں ان کی نظر جا سکتی تھی۔ ان کے ہاتھ بار بار اپنی کمر سے لٹکتے ہوئے چابیوں کے گچھے کو ٹٹولتے، لیکن وہ وہاں موجود نہیں تھی۔

کھوئی ہوئی چابی

یہ کوئی عام چابیوں کا گچھا نہیں تھا۔ اس میں ایک خاص چابی تھی جو ان کے پرانے صندوقچے کو کھولتی تھی، اس صندوقچے میں ان کے شوہر کی یادیں محفوظ تھیں۔ ان کی شادی کی پہلی تصویر، ان کے لکھے ہوئے محبت نامے، اور وہ چھوٹا سا لکڑی کا کھلونا جو انہوں نے اپنی پہلی سالگرہ پر انہیں تحفے میں دیا تھا۔ یہ صندوقچہ مریم بی بی کی زندگی کا ایک قیمتی حصہ تھا، اور اس کی چابی کا گم ہو جانا انہیں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کی ماضی کی کوئی قیمتی یاد ان سے چھن گئی ہو۔

صبح سے وہ سارا گھر چھان چکی تھیں۔ باورچی خانے کے برتنوں کے نیچے، پلنگ کے نیچے، الماریوں کے کونوں میں، ہر جگہ انہوں نے ڈھونڈا، لیکن چابی کا کوئی نشان نہ ملا۔ ان کی بوڑھی کمر درد کرنے لگی تھی اور ان کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔ انہیں لگ رہا تھا جیسے وقت ان کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسل رہا ہو اور وہ بے بسی سے اسے دیکھ رہی ہوں۔

وہ صحن کے ایک کونے میں رکیں اور ایک گہرے سانس لیا۔ سورج ڈھل رہا تھا اور شام کی ہلکی روشنی ان کے گھر پر پڑ رہی تھی۔ انہوں نے اپنی یادداشت پر زور دیا،

کھوئی ہوئی چابی

 کوشش کی کہ یاد کریں کہ آخری بار انہوں نے چابیوں کا گچھا کہاں دیکھا تھا۔ انہیں دھندلی سی یاد آئی کہ دوپہر میں جب وہ باغیچے میں گلاب کے پودوں کو پانی دے رہی تھیں تو ان کی کمر میں تکلیف محسوس ہوئی تھی اور انہوں نے چابیوں کا گچھا صحن کی دیوار پر رکھا تھا۔

ایک امید کی کرن ان کے دل میں چمکی۔ وہ آہستہ آہستہ دیوار کی طرف بڑھیں، ان کی نگاہیں ہر انچ پر مرکوز تھیں۔ دیوار کے ساتھ لگے ہوئے بیل کے پودے کی گھنی شاخوں کے پیچھے انہیں ایک دھاتی چمک دکھائی دی۔ ان کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ انہوں نے احتیاط سے شاخوں کو ہٹایا اور وہاں، مٹی اور خشک پتوں کے درمیان، ان کی کھوئی ہوئی چابی چمک رہی تھی۔

ان کے مرجھائے ہوئے چہرے پر ایک وسیع مسکراہٹ پھیل گئی۔ انہوں نے جھک کر چابی اٹھائی، ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ یہ صرف ایک چابی نہیں تھی، یہ ان کے ماضی سے جڑا ہوا ایک دھاگہ تھی، ان کے پیار کی نشانی تھی۔ انہوں نے چابی کو اپنے سینے سے لگایا اور ایک لمبا شکر کا سانس لیا۔

کھوئی ہوئی چابی

پھر وہ آہستہ آہستہ گھر کے اندر گئیں اور صندوقچے کی طرف بڑھیں۔ ان کے ہاتھ اب نہیں کانپ رہے تھے، ان میں ایک عزم تھا۔ انہوں نے چابی کو تالے میں ڈالا اور آہستگی سے گھمایا۔ صندوقچہ ایک دھیمی سی آواز کے ساتھ کھل گیا۔

مریم بی بی صندوقچے کے سامنے زمین پر بیٹھ گئیں اور اس کے اندر جھانکیں۔ ان کی آنکھوں میں نمی تھی، لیکن یہ غم کی نہیں، خوشی کی نمی تھی۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنے شوہر کی تصویر نکالی، ان کے چہرے پر ایک پیاری سی مسکراہٹ تھی۔ انہوں نے تصویر پر آہستہ سے ہاتھ پھیرا، جیسے وہ انہیں محسوس کر سکتی ہوں۔

پھر انہوں نے محبت نامے نکالے، ان کے الفاظ آج بھی اتنے ہی تازہ تھے جتنے سالوں پہلے تھے۔ ہر لفظ ان کے دل میں ایک گونج پیدا کر رہا تھا۔ آخر میں، انہوں نے وہ چھوٹا سا لکڑی کا کھلونا نکالا، ایک بے جان چیز جس میں ان کے پیار کی ان گنت کہانیاں چھپی ہوئی تھیں۔

اس لمحے میں، مریم بی بی نے محسوس کیا کہ صرف چابی ہی نہیں کھوئی تھی، بلکہ وہ کچھ دیر کے لیے اپنی یادوں کی دنیا سے بھی دور ہو گئی تھیں۔ چابی ملنے سے نہ صرف صندوقچہ کھلا بلکہ ان کے دل کے بند دروازے بھی کھل گئے تھے۔

شام گہری ہو چکی تھی اور کمرے میں اندھیرا پھیل رہا تھا۔ مریم بی بی نے تمام یادگار چیزوں کو احتیاط سے صندوقچے میں واپس رکھا اور اسے بند کر دیا۔ کھوئی ہوئی چابی مل گئی تھی، اور اس کے ساتھ ہی ان کی روح کو ایک سکون مل گیا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ یادیں کبھی نہیں کھوئی جا سکتیں، وہ ہمیشہ ان کے دل میں محفوظ رہیں گی۔

مركزی خیال:

کہا نی اس بات پر زور دیتی ہے کہ یادیں انمول ہوتی ہیں اور وہ مادی اشیاء کے ذریعے محفوظ کی جا سکتی ہیں، لیکن ان کی اصل اہمیت ہمارے دلوں میں ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔


  



Post a Comment

1Comments
Post a Comment

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !