"ایک رات کی حکومت"
شہر فیروز پور میں ایک قدیم روایت تھی کہ ہر سال، ایک رات کے لیے، کوئی بھی عام شہری بادشاہ بن سکتا تھا۔ یہ روایت صدیوں سے چلی آ رہی تھی اور اس رات کو "شبِ اختیار" کہا جاتا تھا۔ اس رات میں، منتخب شدہ شخص کی کہی ہر بات قانون ہوتی تھی، اور اگلے دن سورج نکلنے کے ساتھ ہی اس کی حکومت ختم ہو جاتی۔ اس سال قرعہ فال ایک نوجوان، سادہ دل کسان، امیر کے نام نکلا۔
![]() |
"امیر" |
امیر، جو ہمیشہ کھیتوں میں ہل چلاتا اور اپنی چھوٹی سی جھونپڑی میں قناعت سے زندگی گزارتا تھا، اس خبر سے ششدر رہ گیا۔ لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے، اور شہر کے بزرگوں نے اسے شاہی لباس پہنایا۔ رات کے آغاز پر، اسے شاہی تخت پر بٹھایا گیا، اور سارا شہر اس کے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا۔
امیر کی آنکھوں میں ہزاروں خواب تھے، لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ ایک رات اس کے لیے ایک امتحان ہے۔ اس نے اپنے دل میں فیصلہ کیا کہ وہ اس طاقت کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔ اس نے سب سے پہلے شہر کے غریبوں کی فہرست طلب کی، اور حکم دیا کہ ان کے لیے اگلے چھ ماہ کا راشن سرکاری خزانے سے فراہم کیا جائے۔ دربار میں موجود امیروں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا، کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے خزانوں کو بھرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔
اس کے بعد، امیر نے ایک اور انوکھا حکم جاری کیا۔ اس نے کہا، "آج رات شہر میں کوئی بھی بھوکا نہیں سوئے گا۔ ہر گھر میں لنگر کا انتظام کیا جائے، اور کوئی شخص خالی پیٹ گھر نہ لوٹے۔" اس حکم پر فوراً عملدرآمد ہوا۔ شہر کی گلیاں، جو عموماً رات میں خاموش ہو جاتی تھیں، آج چہل پہل سے بھر گئیں تھیں۔ امیر نے محسوس کیا کہ اصل خوشی دوسروں کو دینے میں ہے۔
پھر امیر نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے سب کو حیران کر دیا۔ اس نے حکم دیا کہ شہر کے تمام قرض داروں کے قرض معاف کر دیے جائیں، بشرطیکہ وہ وعدہ کریں کہ آئندہ ایمانداری سے محنت کریں گے۔ اس حکم نے کئی خاندانوں کی برسوں کی پریشانیاں ختم کر دیں۔ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے، اور وہ امیر کو دعائیں دے رہے تھے۔
![]() |
"گہری رات" |
رات گہری ہو رہی تھی۔ امیر نے اپنی حکمرانی کے آخری لمحات میں ایک اور اہم اعلان کیا۔ اس نے کہا، "کل سے، شہر میں ایک نیا قانون نافذ ہوگا: جو بھی شخص کسی ضرورت مند کی مدد کرے گا، اسے حکومت کی طرف سے انعام دیا جائے گا۔ اور جو بھی کسی پر ظلم کرے گا، اسے سخت سزا ملے گی۔" اس نے اس امید کے ساتھ یہ قانون بنایا کہ لوگ نیکی کے راستے پر چلیں اور دوسروں کا بھلا کریں۔
پھر مشرقی افق پر سرخی نمودار ہونے لگی۔ سورج کی پہلی کرن نے فیروز پور کی دیواروں کو چھوا، اور امیر کے چہرے پر ایک اطمینان بخش مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کی ایک رات کی حکومت ختم ہو چکی تھی، لیکن اس نے اس ایک رات میں وہ کام کر دکھایا تھا جو بڑے بڑے بادشاہ سالوں میں نہیں کر پاتے تھے۔
امیر دوبارہ ایک عام کسان بن گیا، لیکن اس کی کہانی شہر کی ہر گلی میں سنائی جاتی تھی۔ لوگ اسے "ایک رات کا منصف بادشاہ" کہتے تھے۔ اس کی حکمرانی نے شہر کی تقدیر بدل دی تھی، اور لوگ یہ سمجھ گئے تھے کہ سچی طاقت انصاف، ہمدردی اور خدمت میں ہے۔
مرکزی خیال (Central Idea)
اس کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ سچی طاقت حکمرانی اور دولت میں نہیں بلکہ انصاف، ہمدردی اور دوسروں کی خدمت میں مضمر ہے۔
Great 😃😃😃
ReplyDelete