"خوابوں کے سوداگر"
ایک ایسی دنیا جہاں ہر خواہش بکتی ہے
شہرِ فریب کی گلیاں رات کے گہرے سائے میں بھی روشن تھیں۔ یہاں ہر چیز بکتی تھی، مگر سب سے قیمتی سودا خوابوں کا ہوتا تھا۔ "خوابوں کے سوداگر" کہلانے والے پراسرار لوگ اس شہر کے تاریک کونوں میں بیٹھ کر انسانی خواہشات کا کاروبار کرتے تھے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں امیر سے امیر اور غریب سے غریب بھی اپنی ان کہی آرزوئیں لے کر آتے تھے۔
![]() |
"رایان پینٹر" |
رایان، ایک نوجوان پینٹر جس کی آنکھوں میں دنیا فتح کرنے کے خواب تھے، اس شہر میں اپنا نام کمانے آیا تھا۔ مگر شہرِ فریب میں شہرت آسان نہ تھی۔ اس کی پینٹنگز کو کوئی پوچھتا نہ تھا اور بھوک اس کا مستقل ساتھی بن چکی تھی۔ ایک رات، مایوسی کے عالم میں وہ انہی گلیوں میں بھٹک رہا تھا جہاں خوابوں کے سوداگروں کی دکانیں تھیں۔ ایک دکان سے نیلی روشنی پھوٹ رہی تھی اور اندر سے مدھم سرگوشیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ہمت کر کے وہ اندر داخل ہوا۔
دکان کے اندر ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا، جس کی آنکھوں میں گہری چمک تھی۔ اس کا چہرہ برسوں کے تجربے کی گواہی دے رہا تھا۔ اس نے رائےان کو دیکھتے ہی کہا، "آؤ نوجوان، میں جانتا ہوں تم کیا چاہتے ہو۔ شہرت؟ دولت؟ یا وہ کامیابی جو تمھارے خوابوں کو حقیقت بنا دے؟"
رایان حیران رہ گیا۔ اس نے پوچھا، "آپ کون ہیں؟ اور آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں؟"
بوڑھے سوداگر نے ایک پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، "میں وہ ہوں جو تمھاری سب سے گہری خواہشات کو دیکھ سکتا ہوں۔ اور میں وہ ہوں جو انہیں پورا کر سکتا ہوں، مگر ایک قیمت پر۔"
"قیمت؟" رایان نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
"تمھیں اپنا ایک خواب بیچنا ہوگا،" سوداگر نے کہا۔ "وہ خواب جو تمھیں سب سے زیادہ عزیز ہے۔"
رایان مشکل میں پڑ گیا۔ اس کا سب سے عزیز خواب عظیم پینٹر بننے کا تھا، جو اسے کبھی نہ چھوڑتا تھا۔ لیکن اس کی حالت ایسی تھی کہ اسے کوئی بھی قیمت قبول کرنی پڑ سکتی تھی۔ بہت سوچ بچار کے بعد اس نے اپنا وہ خواب بیچنے کا فیصلہ کیا جس میں وہ کبھی اپنے گاؤں واپس نہیں جائے گا، تاکہ وہ شہر میں ہی اپنی منزل تلاش کر سکے۔ سوداگر نے ایک پرانی، چمکتی ہوئی گولی اسے دی اور کہا، "اسے نگل لو۔ تمھارا خواب پورا ہو جائے گا، مگر یاد رکھنا، ہر خواہش کی ایک قیمت ہوتی ہے۔"
![]() |
"پینٹنگز کے چرچے" |
رایان نے وہ گولی نگل لی۔ اگلے ہی دن اس کی زندگی بدل گئی۔ اس کی پینٹنگز راتوں رات مقبول ہو گئیں۔ ہر طرف اس کے نام کا چرچا ہونے لگا۔ اسے وہ شہرت اور دولت ملی جس کا اس نے خواب دیکھا تھا۔ مگر جیسے جیسے وہ کامیاب ہوتا گیا، اس کے اندر سے کچھ کم ہوتا محسوس ہوا۔ اسے اپنے کام میں وہ جنون اور جذبہ محسوس نہیں ہوتا تھا جو پہلے تھا۔ اس کی پینٹنگز میں ایک خالی پن سا آ گیا تھا، جیسے ان میں روح نہ ہو۔
اسے احساس ہوا کہ اس نے شہرت تو خرید لی تھی، مگر اس کا سب سے اہم خواب، وہ خالص جذبہ جو اسے پینٹنگ کے لیے متاثر کرتا تھا، کہیں کھو گیا تھا۔ وہ شہرِ فریب کے اس جال میں پھنس چکا تھا جہاں ہر خواہش بکتی تھی، مگر اس کے بدلے میں کچھ ایسا چھن جاتا تھا
ریان کو ہر شے میسر تھی، سوائے ایک چیز کے: اپنی روح کا وہ حصہ جو ناقابلِ تلافی نقصان کا شکار ہو چکا تھا، اور جسے وہ کبھی دوبارہ حاصل نہیں کر سکتا تھا۔
وہ سمجھ گیا تھا کہ خوابوں کے سوداگر صرف خواب نہیں بیچتے، وہ انسان کی روح کا سودا بھی کرتے ہیں۔ اب رایان کی زندگی ایک خالی کینوس کی مانند تھی، جس پر رنگ تو بہت تھے مگر کوئی کہانی نہیں ۔
"خوابوں کے سوداگر" کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ
ہر خواہش یا کامیابی جو غیر فطری طریقے سے حاصل کی جائے، اس کی ایک پوشیدہ اور مہنگی قیمت ہوتی ہے، جس میں انسان اپنی روح یا کسی اہم جوہر کو کھو دیتا ہے، اور ایسی کامیابی بالآخر خالی پن کا باعث بنتی ہے۔
مزید کہانیاں دیکھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کرے 👇چھوٹی لڑکی، بڑا عزم