سنہری گھڑی

Alham Sania
0

 

"سنہری گھڑی"

رمضان کی گرم دوپہر تھی۔ لاہور کے ایک پرانے محلے کی تنگ گلیوں میں دھوپ اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہی تھی۔ فیروز اپنی سائیکل پر سوار، گلیوں کے پیچ و خم سے گزرتا ہوا جا رہا تھا۔ وہ ایک غریب گھرانے کا چشم و چراغ تھا اور اپنی محنت مزدوری سے گھر کا خرچہ چلاتا تھا۔ آج اسے اپنے ایک پرانے دوست اکرم کے گھر جانا تھا، جس کی ماں شدید بیمار تھیں۔

اکرم کے گھر پہنچ کر فیروز نے دیکھا کہ وہاں محلے کے کچھ اور لوگ بھی جمع تھے۔ سب کے چہروں پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔ اکرم ایک کونے میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔ فیروز نے آگے بڑھ کر اکرم کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اکرم نے آنکھیں اٹھائیں اور فیروز کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

"فیروز، میری ماں کی طبیعت بہت خراب ہے۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ علاج کے لیے فوری طور پر کچھ پیسوں کا انتظام کرنا پڑے گا۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔" اکرم کی آواز میں مایوسی تھی۔

فیروز نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا، "تم فکر مت کرو اکرم۔ میں کچھ نہ کچھ انتظام ضرور کروں گا۔"

فیروز اکرم کے گھر سے نکلا اور گلیوں میں گھومنے لگا۔ اس کے ذہن میں کوئی واضح حل نہیں تھا۔ وہ اپنی محدود آمدنی سے اتنی بڑی رقم کیسے جمع کر پائے گا؟ اچانک اسے اپنے دادا کی دی ہوئی وہ پرانی سنہری گھڑی یاد آئی جو وہ ہمیشہ اپنے پاس رکھتا تھا۔ یہ گھڑی اسے اپنے دادا سے بے حد عزیز تھی، لیکن اکرم کی ماں کی زندگی زیادہ قیمتی تھی۔


سنہری گھڑی

"سنہری گھڑی"

اگلے دن فیروز گھڑی کو لے کر شہر کے ایک پرانے بازار میں گیا۔ اس نے کئی دکانوں پر گھڑی دکھائی، لیکن کوئی بھی اس کی مناسب قیمت لگانے کو تیار نہیں تھا۔ آخر کار ایک بوڑھے جوہری نے گھڑی کو غور سے دیکھا اور کہا، "یہ گھڑی بہت قیمتی ہے۔ اس میں خالص سونا استعمال ہوا ہے اور یہ کافی پرانی بھی ہے۔ میں تمہیں اس کے پچاس ہزار روپے دے سکتا ہوں۔"

فیروز کے لیے یہ رقم بہت بڑی تھی۔ اس نے کبھی اتنے پیسے ایک ساتھ نہیں دیکھے تھے۔ اس کا دل اپنی یادگار گھڑی بیچنے پر دکھی تھا، لیکن اکرم کی ماں کی جان بچانے کے لیے اس نے فوراً حامی بھر لی۔

پیسے لے کر فیروز سیدھا اکرم کے گھر پہنچا۔ اکرم اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ فیروز نے سارے پیسے اکرم کے ہاتھ میں رکھ دیے۔ اکرم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے فیروز کو گلے لگا لیا۔

"فیروز، تم نے یہ سب کیسے کیا؟ اتنے پیسے تم کہاں سے لائے؟" اکرم نے پوچھا۔

فیروز نے اپنی سنہری گھڑی کے بارے میں بتایا۔ اکرم یہ سن کر اور بھی زیادہ متاثر ہوا۔ اس نے کہا، "فیروز، تم نے میری ماں کی جان بچانے کے لیے اپنی سب سے قیمتی چیز قربان کر دی۔ میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔"

وقت گزرتا گیا اور اکرم کی ماں کی صحت بہتر ہوتی گئی۔ فیروز نے اپنی سنہری گھڑی بیچنے کے بعد کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔ وہ اپنی محنت مزدوری میں لگا رہا اور اپنے دوست کی مدد کر کے اسے دلی سکون ملتا تھا۔


سنہری گھڑی

"اکرم اور فیروز"

ایک دن اکرم فیروز کے پاس آیا اور اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا مخملی ڈبہ تھا۔ فیروز نے حیرت سے پوچھا، "یہ کیا ہے اکرم؟"

اکرم نے ڈبہ کھولا۔ اس میں وہی سنہری گھڑی تھی جو فیروز نے اسے اپنی ماں کے علاج کے لیے بیچی تھی۔ فیروز کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

"اکرم، یہ تم نے کیا کیا؟ تمہیں اتنے پیسے کہاں سے ملے؟" فیروز نے پوچھا۔

اکرم نے مسکرا کر کہا، "میری ماں اب بالکل ٹھیک ہیں۔ انہوں نے کچھ زمین بیچی تو مجھے کچھ پیسے ملے۔ میں نے سوچا کہ تمہاری قیمتی گھڑی تمہیں واپس مل جانی چاہیے۔ تمہارا احسان تو میں کبھی نہیں چکا سکتا، لیکن یہ میری طرف سے ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔"

فیروز نے گھڑی اپنے ہاتھ میں لی۔ وہ بھاری ضرور تھی، لیکن اس وقت اس کا وزن پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہو رہا تھا۔ یہ صرف ایک گھڑی نہیں تھی، یہ دوستی، قربانی اور ایک دوسرے کے لیے بے لوث محبت کی نشانی تھی۔ اس نے اکرم کو گلے لگایا اور دونوں دوست خاموشی سے اس سنہری گھڑی کو دیکھتے رہے جو ان کی لازوال دوستی کی گواہ تھی۔ یہ سنہری گھڑی وقت کے ساتھ ساتھ ان کے رشتے کو اور بھی مضبوط کرتی چلی گئی۔

 مرکزی خیال: 

بے لوث دوستی، قربانی اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے۔ یہ کہانی دکھاتی ہے کہ سچی دوستی ذاتی مفادات سے بالاتر ہوتی ہے اور دوست ایک دوسرے کی مدد کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ فیروز کا اپنی قیمتی سنہری گھڑی بیچ کر اپنے دوست کی ماں کی جان بچانا قربانی کی ایک بہترین مثال ہے۔ اسی طرح اکرم کا اپنی دوست کی نشانی واپس لوٹانا بے لوث محبت اور وفاداری کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ مشکل وقت عارضی ہوتا ہے، لیکن سچے دوست ہمیشہ ساتھ نبھاتے ہیں۔



Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !