دریا کا کنارہ

Alham Sania
1

 

"دریا کا کنارہ"

وہ جگہ، جہاں ریتلی زمین نرمی سے پانی کو چھوتی تھی، ایک ایسی دنیا تھی جو اپنی ہی رفتار سے دھڑکتی تھی۔ یہ دریا کا کنارہ تھا، ایک ایسی پناہ گاہ جہاں وقت کی تندی مدھم پڑ جاتی تھی اور فطرت اپنی لازوال کہانی سرگوشی کرتی تھی۔

میں اکثر یہاں آتا تھا، شہر کی افراتفری سے دور، اس پرسکون منظر کی آغوش میں پناہ لینے۔ میرے قدم ریت پر دھیمے نشان چھوڑتے، جو کچھ ہی دیر میں ہوا کے ایک جھونکے سے مٹ جاتے۔ دریا کا شور، جو کبھی مدھم سرگوشی اور کبھی زوردار نغمہ بن جاتا، میرے کانوں میں رس گھولتا۔ یہ ایک ایسا سنگیت تھا جو ہمیشہ بدلتا رہتا تھا، پھر بھی اس کی بنیاد لازوال تھی۔


دریا کا کنارہ

"دریا کا کنارہ"

اس دن، جب میں دریا کے کنارے پہنچا تو سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ اس کی سنہری کرنیں پانی پر رقص کر رہی تھیں، جس سے ایک دلکش منظر پیدا ہو رہا تھا۔ ہوا میں نمی تھی اور دور کہیں پرندوں کی چہچہاہٹ سنائی دے رہی تھی۔ میں نے ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ کر اپنے پاؤں ریت میں پھیلا دیے۔ ریت گرم اور نرم تھی، اور اس کا لمس مجھے زمین سے جوڑ رہا تھا۔

دریا خاموشی سے بہہ رہا تھا، اس کا پانی صاف اور شفاف تھا۔ میں اس میں اپنے عکس کو دیکھ سکتا تھا، جو ہلکی سی لہر سے دھندلا جاتا اور پھر واضح ہو جاتا۔ دریا کے اندر، چھوٹے مچھلیوں کے جھنڈ تیر رہے تھے، ان کے چاندی جیسے جسم دھوپ میں چمک رہے تھے۔ کبھی کبھار ایک بڑی مچھلی سطح پر اچھلتی اور پھر غائب ہو جاتی، جس سے پانی میں ایک لمحے کے لیے ارتعاش پیدا ہوتا۔

کنارے پر، گھاس اور جنگلی پھولوں کی ایک پتلی سی پٹی تھی، جو ہوا میں ہلکے ہلکے جھول رہے تھے۔ رنگ برنگے تتلیاں ان پر منڈلا رہی تھیں، ان کے نازک پروں پر قدرت نے کیسے کیسے حسین نقش و نگار بنائے تھے۔ ایک زرد رنگ کی تتلی میرے قریب آ کر بیٹھی اور پھر اڑ گئی۔ اس کی مختصر سی موجودگی نے میرے دل میں ایک گہری مسرت بھر دی۔

میں نے اپنی نظریں دور افق پر مرکوز کیں، جہاں دریا ایک دھندلی سی لکیر بن کر آسمان سے مل رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ لامتناہی سفر پر گامزن ہو، نہ جانے کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے۔ اس کی روانی میں ایک ایسی طاقت تھی جو خاموش تھی مگر اٹل تھی۔


دریا کا کنارہ

"بوڑھا شخص"

کچھ دیر بعد، مجھے دور سے ایک آہٹ سنائی دی۔ ایک بوڑھا شخص، جس کے بال برف کی طرح سفید تھے اور چہرے پر وقت کی گہری لکیریں پڑی ہوئی تھیں، ایک بانس کی چھڑی کے سہارے میری طرف آ رہا تھا۔ اس کے لباس سادہ تھے مگر صاف ستھرے تھے۔ جب وہ میرے قریب پہنچا تو اس نے ایک دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے سلام کیا۔

میں نے بھی مسکرا کر اس کا جواب دیا۔ وہ میرے پاس ہی ایک اور پتھر پر بیٹھ گیا۔ ہم دونوں خاموشی سے دریا کو دیکھتے رہے، جیسے ہم ایک ہی کہانی کے دو کردار ہوں۔ اس خاموشی میں ایک اپنائیت تھی، ایک ایسا ربط جو الفاظ سے بالاتر تھا۔

آخر کار، بوڑھے شخص نے اپنی خاموشی توڑی۔ "یہ دریا بہت سی کہانیاں جانتا ہے،" اس نے دھیمی آواز میں کہا۔ "یہ ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو یہاں آئے اور چلے گئے، ان خوشیوں کو بھی جو یہاں منائی گئیں اور ان غموں کو بھی جو یہاں آنسو بن کر بہے۔"

میں نے تجسس سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک گہری دانش جھلک رہی تھی۔

"ہر لہر ایک یاد ہے،" اس نے جاری رکھا۔ "کچھ یادیں تیز ہیں، جو شور مچاتی ہوئی گزر جاتی ہیں، اور کچھ دھیمی ہیں، جو خاموشی سے دل میں اتر جاتی ہیں۔ لیکن یہ سب اس دریا کا حصہ ہیں، اور یہ سب آخر کار سمندر میں مل جاتی ہیں۔"

اس کی باتیں میرے دل میں اتر گئیں۔ میں نے دریا کی طرف دیکھا، اور اب مجھے اس کی ہر لہر میں ایک کہانی نظر آ رہی تھی۔ زندگی کی طرح، یہ بھی مسلسل رواں دواں تھا، اپنے ساتھ ماضی کے نقوش لیے ہوئے۔


دریا کا کنارہ

"سورج
اب ڈھلنے لگا"

سورج اب ڈھلنے لگا تھا، اور آسمان پر نارنجی اور گلابی رنگوں کی ایک دلکش چادر پھیل گئی تھی۔ دریا کا پانی بھی ان رنگوں میں رنگین ہو گیا تھا۔ بوڑھا شخص اٹھ کھڑا ہوا۔

"اب مجھے جانا ہوگا،" اس نے کہا۔ "لیکن میں پھر آؤں گا۔ یہ دریا مجھے ہمیشہ کھینچتا ہے۔"

میں نے بھی اٹھ کر اسے الوداع کہا۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس کی باتیں میرے ذہن میں گونج رہی تھیں۔

شام کی خنکی بڑھنے لگی تھی، اور دریا کے کنارے پر ایک پراسرار سکوت چھا گیا تھا۔ میں کچھ دیر اور وہاں بیٹھا رہا، اس خوبصورت منظر کو اپنی آنکھوں میں سموتا رہا۔ پھر، جب اندھیرا گہرا ہونے لگا، میں بھی گھر کی طرف چل پڑا۔

اس دن دریا کے کنارے میں نے صرف ایک خوبصورت منظر ہی نہیں دیکھا تھا، بلکہ زندگی کے ایک گہرے سبق کو بھی محسوس کیا تھا۔ دریا کی طرح، زندگی بھی ایک مسلسل سفر ہے، جس میں خوشیاں اور غم، عروج و زوال سب شامل ہیں۔ اہم یہ ہے کہ ہم اس روانی کو قبول کریں اور ہر لمحے کی قدر کریں۔ اور کبھی کبھی، شہر کی ہلچل سے دور، فطرت کی خاموش آغوش میں پناہ لینا روح کے لیے بہترین غذا ثابت ہوتا ہے۔ دریا کا کنارہ ہمیشہ میری اس پناہ گاہ کے طور پر یاد رہے گا۔

 مرکزی خیال:

 فطرت میں پناہ لینے سے ہم زندگی کی گہری سچائیوں کو سمجھ سکتے ہیں اور سکون حاصل کر سکتے ہیں، اور یہ کہ زندگی کی تبدیلیوں کو کھلے دل سے قبول کرنا ہی حقیقی اطمینان کی طرف لے جاتا ہے۔



Post a Comment

1Comments
Post a Comment

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !