سمندر کا راز

Alham Sania
0

 

"سمندر کا راز"

دور ایک چھوٹے سے ساحلی گاؤں میں، جہاں ریت سنہری اور سمندر لازوال نیلے رنگ کا تھا، ایک بوڑھا ماہی گیر رہتا تھا۔ اس کا نام بابا جان تھا اور اس کی عمر اتنی ہی پرانی لگتی تھی جتنا کہ گاؤں خود۔ بابا جان نے اپنی پوری زندگی سمندر کے کنارے گزاری تھی، اس کی لہروں کی سرگوشیوں کو سنا تھا اور اس کے مزاج کے ہر اتار چڑھاؤ کو محسوس کیا تھا۔ گاؤں کے لوگ اسے سمندر کا رازدار کہتے تھے، کیونکہ وہ اس کے بارے میں ایسی کہانیاں جانتا تھا جو کسی کتاب میں نہیں لکھی گئی تھیں۔


سمندر کا راز

"سمندر پر سورج کی کرنیں"


ایک روز، جب سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا اور سمندر کی سطح پر ہیرے کی مانند کرنیں ناچ رہی تھیں، ایک نوجوان لڑکی بابا جان کے پاس آئی۔ اس کا نام مریم تھا اور اس کی آنکھوں میں ایک ایسی جستجو تھی جو اکثر نوجوانوں میں پائی جاتی ہے۔ مریم شہر سے چھٹیاں گزارنے آئی تھی اور سمندر کی وسعت اور گہرائی نے اسے مسحور کر دیا تھا۔

  "بابا جان،" مریم نے کہا، "لوگ کہتے ہیں کہ آپ سمندر کے راز جانتے ہیں۔ کیا یہ سچ ہے؟"

بابا جان نے اپنی جھریوں بھری مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف دیکھا۔ "ہر وہ شخص جو سمندر سے محبت کرتا ہے، اس کے کچھ راز جانتا ہے، بیٹی۔ لیکن سمندر کے سب سے بڑے راز تو اس کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے ہیں۔"

مریم کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ "کیا آپ مجھے ان رازوں کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟"

بابا جان نے ایک گہری سانس لی، جیسے وہ اپنی یادوں کے سمندر میں غوطہ زن ہو رہے ہوں۔ "یہ راز صدیوں پرانے ہیں، مریم۔ یہ ان مچھلیوں کی کہانیاں ہیں جو گیت گاتی ہیں، ان مرجانوں کی جو رنگ بدلتے ہیں، اور ان غاروں کی جو پراسرار روشنی سے بھرے ہیں۔"

مریم نے بے صبری سے پوچھا، "کیا آپ نے انہیں دیکھا ہے؟"

بابا جان نے اثبات میں سر ہلایا۔ "جب میں تمہاری عمر کا تھا، ایک طوفانی رات میں میری کشتی ایک انجانی جگہ پر جا پہنچی۔ وہاں میں نے ایک ایسا منظر دیکھا جو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ سمندر کا فرش چمکتے ہوئے پتھروں اور رنگ برنگی مخلوقات سے سجا ہوا تھا۔ میں نے ایسی مچھلیاں دیکھیں جن کے جسم پر ستاروں کی مانند نشان تھے اور ایسے پودے جو تاروں کی طرح جھلملا رہے تھے۔"

مریم حیرت زدہ رہ گئی۔ "کیا وہ سب سچ تھا، بابا جان؟ یا یہ صرف ایک خواب تھا؟"


بابا جان نے جواب دیا، "سمندر کی دنیا ہماری دنیا سے بہت مختلف ہے۔ وہاں وقت مختلف انداز میں گزرتا ہے اور حقیقت خوابوں سے زیادہ عجیب ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ راز صرف ان لوگوں پر کھلتے ہیں جو سمندر کا احترام کرتے ہیں اور اس کی خاموشی کو سنتے ہیں۔"


کچھ دن بعد، مریم نے بابا جان کے ساتھ سمندر میں جانے کی خواہش ظاہر کی۔ بابا جان نے پہلے تو ہچکچاہٹ محسوس کی، لیکن مریم کی پرجوش آنکھوں کو دیکھ کر وہ انکار نہ کر سکے۔ ایک پرسکون صبح، وہ اپنی چھوٹی سی کشتی میں سوار ہو کر دور سمندر میں نکل گئے۔


سمندر کا راز

"چھوٹی سی کشتی سمندر میں"


جب وہ کھلے پانیوں میں پہنچے تو بابا جان نے لنگر ڈالا اور مریم کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ وہ دونوں کافی دیر تک خاموشی سے بیٹھے رہے، صرف لہروں کی مدھر آواز اور دور سے آتی ہوئی سمندری پرندوں کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔

اچانک، مریم نے پانی میں کچھ چمکتا ہوا دیکھا۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جو پہلے کبھی اس نے نہیں دیکھی تھی۔ وہ ایک بڑا سا صدف تھا جس کے اندر سے قوس قزح کے رنگ پھوٹ رہے تھے۔ جب مریم نے اسے اٹھانے کی کوشش کی تو صدف کھل گیا اور اس کے اندر ایک چمکدار موتی نمودار ہوا۔ یہ موتی اتنا بڑا اور روشن تھا کہ اس کی روشنی سے آس پاس کا پانی بھی جگمگا اٹھا۔

مریم نے حیرت سے بابا جان کی طرف دیکھا۔ بابا جان نے مسکرا کر کہا، "یہ سمندر کا ایک اور راز ہے، مریم۔ یہ ان لوگوں کو ملتا ہے جو صبر کرتے ہیں اور جو خوبصورتی کو پہچانتے ہیں۔"


مریم نے اس موتی کو اپنی ہتھیلی میں رکھا۔ یہ نہ صرف ایک قیمتی پتھر تھا، بلکہ سمندر کی گہرائیوں سے آیا ہوا ایک پیغام بھی تھا۔ اس دن مریم نے سمجھ لیا کہ سمندر صرف پانی کا ایک وسیع ذخیرہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسی دنیا ہے جو عجائبات اور رازوں سے بھری ہوئی ہے۔ اور ان رازوں کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس کے ساتھ ایک گہرا اور پرسکون رشتہ قائم کرے۔


جب وہ شام ڈھلے واپس گاؤں پہنچے تو مریم کی آنکھوں میں وہ چمک اور بھی گہری ہو چکی تھی جو اس نے بابا جان سے سوال کرتے وقت دکھائی تھی۔ اب وہ صرف ایک سیاح نہیں تھی، بلکہ سمندر کی ایک نئی رازدار بن چکی تھی۔ اس نے بابا جان کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ وہ ہمیشہ سمندر کا احترام کرے گی اور اس کے رازوں کو اپنے دل میں محفوظ رکھے گی۔


بابا جان نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور کہا، "یہی سمندر کا سب سے بڑا راز ہے، بیٹی۔ اسے پیار کرنے والے ہمیشہ اس کے قریب رہتے ہیں، چاہے وہ اس کی سطح پر ہوں یا اس کی گہرائیوں میں۔"


مرکزی خیال:

 اس طرح، مریم نے اس دن سمندر کا ایک ایسا راز جان لیا جو اسے ہمیشہ یاد رہے گا۔ یہ راز کسی خزانے یا کسی طلسماتی مخلوق کا نہیں تھا، بلکہ یہ اس خاموش اور گہری محبت کا راز تھا جو انسان اور سمندر کے درمیان ابدی طور پر قائم رہ سکتی ہے۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !