"سمیع کی ہمت "
ایک پرانے زمانے میں، سرسبز و شاداب وادیوں کے درمیان ایک چھوٹا سا گاؤں آباد تھا۔ اس گاؤں کے ایک طرف ایک وسیع و عریض اور پراسرار جنگل پھیلا ہوا تھا۔ یہ جنگل صدیوں سے گاؤں والوں کے لیے خوف اور تجسس کا مرکز بنا ہوا تھا۔ پرانی کہانیاں اور قصے گردش کرتے رہتے تھے کہ اس جنگل میں بھٹکی ہوئی روحیں آہ و فغاں کرتی ہیں اور عجیب و غریب، خوفناک مخلوقات چھپی رہتی ہیں۔ سورج کی روشنی بھی بمشکل ان گھنے درختوں کے درمیان سے گزر پاتی تھی، جس کی وجہ سے دن میں بھی جنگل میں ایک پراسرار تاریکی چھائی رہتی تھی۔ ان تمام باتوں کے باعث، گاؤں کا کوئی بھی شخص دن کی روشنی میں بھی اس جنگل میں اکیلے قدم رکھنے کی جرأت نہیں کرتا تھا
اسی گاؤں میں ایک بارہ سال کا ایک لڑکا رہتا تھا، جس کا نام سمیع تھا۔ سمیع دوسرے بچوں سے مختلف تھا۔ وہ دلیر اور تجسس سے لبریز تھا۔ جہاں دوسرے بچے جنگل کے نام سے بھی سہم جاتے تھے، وہیں سمیع کے دل میں اس کے اسرار کو جاننے کی شدید خواہش تھی۔ وہ گاؤں والوں کی خوفناک کہانیوں پر پوری طرح یقین نہیں کرتا تھا اور ہمیشہ یہ سوچتا تھا کہ آخر اس جنگل میں ایسا کیا ہے جو سب کو اتنا ڈراتا ہے۔ اس کے ننھے ذہن میں اس پراسرار جگہ کی ایک خیالی تصویر بنی رہتی تھی، جس میں وہ بہادری کے کارنامے سرانجام دیتا اور چھپے ہوئے رازوں سے پردہ اٹھاتا۔
ایک دن، جب سمیع نے اپنے دل میں اس تجسس کی آگ کو مزید بھڑکتے ہوئے محسوس کیا، تو اس نے ایک بڑا فیصلہ کر لیا۔ وہ اکیلا اس پراسرار جنگل میں جائے گا اور اپنی آنکھوں سے دیکھے گا کہ وہاں حقیقت میں کیا ہے۔ اس نے اپنی پیاری ماں سے جھوٹ بولا کہ وہ اپنے قریبی دوست ارسلان کے گھر جا رہا ہے، اور پھر چپکے سے، جب سب گاؤں والے اپنے کاموں میں مصروف تھے، وہ جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس کے چھوٹے سے دل میں تھوڑا سا خوف بھی تھا، لیکن تجسس کی طاقت اس پر غالب تھی۔
جیسے ہی سمیع نے جنگل کی حدود میں قدم رکھا، اسے ایک بالکل مختلف دنیا کا تجربہ ہوا۔ باہر کی روشن اور جانی پہچانی فضا یکدم بدل گئی۔ درخت اتنے اونچے اور ان کی شاخیں اتنی گھنی تھیں کہ اوپر سے آسمان کا بہت کم حصہ نظر آ رہا تھا۔ سورج کی روشنی بمشکل ان کے درمیان سے چھن کر زمین تک پہنچ رہی تھی، جس سے ہر طرف ایک مدھم اور پراسرار سایہ پھیلا ہوا تھا۔ عجیب و غریب قسم کی آوازیں آ رہی تھیں – پتوں کی سرسراہٹ، نامعلوم پرندوں کی چیخیں اور دور سے کسی جانور کی غرغراہٹ۔ عام حالات میں یہ آوازیں کسی کو بھی خوفزدہ کر سکتی تھیں، لیکن سمیع کا تجسس اس کے خوف پر حاوی تھا۔ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ان آوازوں کے درمیان آگے بڑھتا رہا، اس امید کے ساتھ کہ وہ کوئی نئی اور دلچسپ چیز ضرور دیکھے گا۔
چلتے چلتے سمیع ایک کھلی جگہ پر پہنچا، جہاں درخت کچھ کم تھے اور زمین پر گھاس اگائی ہوئی تھی۔ اس کھلی جگہ کے وسط میں ایک چھوٹا سا، پرسکون تالاب تھا۔ تالاب کا پانی بالکل صاف تھا اور اس میں ارد گرد کے درختوں کا عکس نظر آ رہا تھا۔ تالاب کے کنارے، سمیع نے ایک دلخراش منظر دیکھا۔ ایک چھوٹا سا، خوبصورت پرندہ زمین پر پڑا کراہ رہا تھا۔ اس کے پروں کا رنگ قوس قزح کی طرح تھا، لیکن اب وہ بے جان اور مٹی آلود تھے۔ سمیع کا معصوم دل اس زخمی مخلوق کو دیکھ کر درد سے بھر گیا۔ وہ آہستہ سے پرندے کے پاس گیا اور جھک کر دیکھا کہ اس کا ایک نازک پر بری طرح سے ٹوٹا ہوا ہے اور خون رس رہا ہے۔
سمیع نے فوراً فیصلہ کیا کہ وہ اس بے بس پرندے کی مدد کرے گا۔ اس نے اپنی نئی قمیض کے دامن سے ایک صاف ٹکڑا پھاڑا اور بڑی احتیاط سے اس سے پرندے کے زخمی پر پر پٹی باندھ دی۔ اس نے کوشش کی کہ پٹی نہ تو بہت زیادہ تنگ ہو اور نہ ہی اتنی ڈھیلی کہ کھل جائے۔ پھر اس نے اس ننھے پرندے کو اپنی ہتھیلی پر اٹھایا۔ وہ بہت ہلکا اور بے جان محسوس ہو رہا تھا۔ سمیع نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور اس کی گرمی محسوس کرنے کی کوشش کی۔
جب سمیع جنگل سے واپس گاؤں کی طرف آ رہا تھا، تو اسے راستے میں ایک اور افسوسناک منظر دکھائی دیا۔ ایک بوڑھی عورت، جس کے چہرے پر وقت کی جھریاں تھیں اور آنکھوں میں آنسو تھے، ایک درخت کے نیچے بیٹھی رو رہی تھی۔ سمیع، جس کا دل پہلے ہی زخمی پرندے کو دیکھ کر نرم ہو چکا تھا، فوراً اس کے پاس گیا اور نرمی سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے۔ بوڑھی عورت نے اپنی دکھی کہانی سنائی کہ وہ جنگل میں لکڑیاں جمع کرنے آئی تھی اور واپسی کا راستہ بھول گئی ہے۔ وہ بہت تھکی ہوئی اور کمزور محسوس کر رہی تھی اور اسے ڈر تھا کہ وہ رات جنگل میں اکیلی کیسے گزارے گی۔
سمیع نے اس بے سہارا بوڑھی عورت کو اکیلا چھوڑنا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے اپنا چھوٹا سا ہاتھ بڑھایا اور اس بوڑھی عورت کو سہارا دیا۔ آہستہ آہستہ، وہ اسے پکڑ کر گاؤں کی طرف لے جانے لگا۔ بوڑھی عورت سمیع کی مہربانی پر حیران اور شکر گزار تھی۔ اس نے لڑکے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور اسے دعائیں دیں۔
جب سمیع زخمی پرندے کو گود میں لیے اور بوڑھی عورت کو سہارا دیتے ہوئے گاؤں میں داخل ہوا، تو گاؤں والوں نے اسے دیکھ کر حیرانی کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ وہ جنگل میں کیا کر رہا تھا اور اس کے ساتھ یہ کون لوگ ہیں۔ سمیع نے بغیر کسی خوف کے سب کو زخمی پرندے اور بوڑھی عورت کے بارے میں سچ سچ بتا دیا۔ اس کی کہانی سن کر گاؤں والوں کو بہت شرمندگی محسوس ہوئی کہ وہ ایک چھوٹے سے لڑکے کی طرح بہادر اور مددگار نہیں بن سکے۔ ان کا برسوں کا ڈر ایک معصوم بچے کی ہمت اور رحم دلی کے سامنے بے معنی ہو گیا تھا۔
اگلے دن، سمیع نے بڑے پیار سے زخمی پرندے کی دیکھ بھال جاری رکھی۔ اس نے اسے نرم روٹی کے ٹکڑے کھلائے اور صاف پانی پلایا۔ کچھ ہی دنوں میں، پرندہ بالکل ٹھیک ہو گیا اور اس کے پروں کی طاقت واپس آ گئی۔ ایک صبح، سمیع نے پرندے کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور اسے کھلی فضا میں آزاد کر دیا۔ پرندہ ایک خوبصورت چہچہاہٹ کے ساتھ آسمان کی طرف اڑ گیا، گویا سمیع کا شکریہ ادا کر رہا ہو۔ بوڑھی عورت بھی اب بالکل ٹھیک تھی اور اس نے سمیع کا بار بار شکریہ ادا کیا اور اسے ڈھیروں دعائیں دیں۔
اس دن کے بعد سے گاؤں والوں کا اس پراسرار جنگل کے بارے میں برسوں پرانا ڈر ختم ہو گیا۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ جنگل صرف خوفناک مخلوقات کا مسکن نہیں ہے، بلکہ وہاں بے بس اور مدد کی ضرورت مند جاندار بھی رہتے ہیں۔ سمیع کی بہادری اور رحم دلی نے نہ صرف ایک پرندے اور ایک بوڑھی عورت کی جان بچائی تھی، بلکہ پورے گاؤں کی سوچ اور رویے کو بھی بدل دیا تھا۔
سمیع اب گاؤں کا ہیرو بن گیا تھا۔ بچے اس کی بہادری کے قصے سنتے اور اس کی طرح بننے کی خواہش کرتے تھے۔ بڑے اس کی سمجھداری اور رحم دلی کی تعریف کرتے تھے۔ سب نے اس سے یہ اہم سبق سیکھا کہ حقیقی بہادری صرف خطرات کا سامنا کرنے میں نہیں ہوتی، بلکہ دوسروں کی مدد کرنے، ان کے ساتھ ہمدردی کرنے اور مشکل وقت میں ان کا سہارا بننے میں بھی ہے۔ اس واقعے کے بعد، گاؤں والوں نے جنگل کو ایک مختلف نظر سے دیکھنا شروع کر دیا اور اب وہ ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کی مدد کے لیے وہاں جانے سے بھی نہیں ہچکچاتے تھے۔ سمیع کی کہانی ہمیشہ ان کے دلوں میں زندہ رہی اور انہیں نیکی اور ہمدردی کی راہ پر چلنے کی ترغیب دیتی رہی۔
اس کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ:
حقیقی بہادری اور طاقت صرف خطرات کا سامنا کرنے میں نہیں ہوتی، بلکہ دوسروں کے ساتھ رحم دلی، ہمدردی اور مدد کرنے میں بھی مضمر ہے۔
💞💞💞💞💞💞💞💞
ReplyDelete🥰🥰🥰
ReplyDelete