چھوٹا سا بیج اور بڑا درخت

Alham Sania
0

 

"چھوٹا سا بیج اور بڑا درخت"

ایک سرسبز و شاداب گاؤں میں، نانی اماں رہتی تھیں۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا سکون اور مشغلہ ان کا باغ تھا، جہاں وہ ہر طرح کے پھول اور سبزیاں اگاتی تھیں۔ ایک دن، جب وہ باغ میں کام کر رہی تھیں، انہیں ایک بہت ہی چھوٹا اور معمولی سا بیج ملا۔ نانی اماں نے اسے ہتھیلی پر رکھ کر سوچا، "کیا یہ اتنا ننھا سا بیج بھی کچھ بن پائے گا؟" ایک لمحے کو انہیں شک ہوا، مگر ان کے اندر کے باغبانی کے شوق نے انہیں بیج بونے پر آمادہ کر دیا۔


چھوٹا سا بیج اور بڑا درخت

"بیج بو   دیا"


انہوں نے باغ کے ایک کونے میں، جہاں سورج کی روشنی خوب پڑتی تھی، اس بیج کو احتیاط سے بو دیا۔ پھر ہر روز، وہ اسے باقاعدگی سے پانی دیتیں اور پیار بھری نگاہوں سے اسے دیکھتی رہتیں۔ وہ صرف پانی ہی نہیں دیتی تھیں، بلکہ اپنی ممتا بھری توجہ سے اس کی پرورش کرتیں۔

دن گزرتے رہے، موسم بدلتے رہے، اور نانی اماں کی امید بڑھتی رہی۔ گاؤں کے دوسرے باغبان، جو زیادہ بڑے اور تیزی سے بڑھنے والے پودے لگاتے تھے، اکثر ان پر ہنستے تھے۔ "نانی اماں!" ایک نے طنزاً کہا، "آپ اپنا وقت اور پانی کیوں ضائع کر رہی ہیں؟ اس چھوٹے سے بیج سے کیا حاصل ہوگا؟ یہ تو کبھی نہیں اُگے گا!"

دوسرا بولا،

 "یہ تو بس ایک ریت کا ذرہ ہے، اس سے کیا توقع رکھ رہی ہیں؟" لیکن نانی اماں نے ان کی باتوں پر بالکل توجہ نہ دی۔ ان کا ایمان تھا کہ اگر لگن اور صبر سے کام کیا جائے تو کوئی بھی کوشش رائیگاں نہیں جاتی۔ انہیں اپنی محنت پر یقین تھا۔

پھر ایک صبح، جب ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور پرندے چہچہا رہے تھے، نانی اماں معمول کے مطابق اپنے باغ میں پہنچیں۔ ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ جس جگہ انہوں نے بیج بویا تھا، وہاں سے مٹی کو چیر کر ایک ننھا سا ہرا پودا سر اٹھا رہا تھا۔ اس کی پتیاں ابھی بہت نازک تھیں، مگر ان میں زندگی کی ایک نئی رمق تھی۔ نانی اماں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک اٹھے۔ یہ صرف ایک پودا نہیں تھا، یہ ان کے صبر، ان کی امید، اور ان کی انتھک محنت کا ثمر تھا۔ اس کے بعد تو انہوں نے اس پودے کی دیکھ بھال اور بھی زیادہ لگن سے شروع کر دی۔

وقت گزرتا رہا۔ ننھا پودا اب ایک چھوٹے سے درخت میں بدل چکا تھا۔ اس کی شاخیں مضبوط ہو چکی تھیں، جن پر گھنے، ہرے پتے تھے جو دھوپ میں گہرا سایہ فراہم کرتے تھے۔ پھر ایک دن، ان ہی پتوں کے بیچ سے، ایک ننھا، خوشبودار پھول جھانک رہا تھا۔ آہستہ آہستہ، وہ پھول بڑا ہوا، اور اس کی خوبصورتی نے پورے گاؤں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آتے، اس کی نازک پنکھڑیوں اور مدھر خوشبو کی تعریف کرتے۔ اس کے بعد، پھول میٹھے، رسیلے پھلوں میں بدلنے لگے جو سب کی بھوک مٹاتے۔


چھوٹا سا بیج اور بڑا درخت

"پھل اور ساۓ دار درخت"


اب وہ بیج، جسے کبھی سب نے حقیر جانا تھا، ایک تناور اور پھل دار درخت بن چکا تھا۔ اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں گاؤں کے بچے کھیلتے، بزرگ سکون پاتے، اور مسافر آرام کرتے۔ لوگ اس درخت کے نیچے بیٹھ کر اس کے میٹھے پھل کھاتے اور نانی اماں کی غیر متزلزل محنت اور بے پناہ صبر کی کہانی دہراتے، جو ایک چھوٹے سے بیج سے شروع ہو کر ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گئی تھی۔ یہ درخت صرف لکڑی اور پھل کا ذریعہ نہیں تھا، بلکہ گاؤں والوں کے لیے امید، استقامت اور یقین کی علامت بن گیا تھا۔

سبق:

یہ کہانی ہمیں زندگی کے چند گہرے سبق سکھاتی ہے

  صبر اور محنت کا پھل: کوئی بھی بڑا کام، چاہے وہ شروع میں کتنا بھی مشکل یا بظاہر بے معنی لگے، اگر لگن اور صبر کے ساتھ کیا جائے تو اس کا پھل ضرور ملتا ہے۔

 

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !